امریکی ڈرونز پر وائرس حملہ
10 اکتوبر 2011وائرڈ میگزین کے مطابق ڈرون نظاموں پر حملہ کرنے والے اس وائرس کا پتہ دو ہفتے قبل لگایا گیا۔ یہ وائرس فوج کے ’ہوسٹ بیسڈ سکیورٹی سسٹم‘ میں موجود تھا، تاہم اس کی وجہ سے افغانستان اور دیگر جنگی علاقوں پر ان ڈرون طیاروں کی پروازوں پر مبنی مشنز پر کوئی فرق نہیں پڑا۔ ان ریموٹ کنٹرول طیاروں کو امریکہ کی نیواڈا کریچ ایئرفورس بیس سے کنٹرول کیا جاتا ہے۔
اس وائرس حملے کے حوالے سے خیال کیا جاتا ہے کہ اس سے نہ تو کسی قسم کی کوئی خفیہ معلومات اس نیٹ ورک سے باہر بھیجی گئی ہیں اور نہ ہی ایسے کسی ڈیٹا کو نقصان پہنچا ہے۔ تاہم اس وائرس کے خاتمے کے لیے ماہرین کو کافی محنت کرنا پڑی کیونکہ ایک بار ختم کیے جانے کے بعد یہ وائرس دوبارہ سسٹم میں موجود ہوتا تھا۔
وائرس حملے کا نشانہ بننے والے نیٹ ورک سے متعلق ایک شخص نے وائرڈ میگزین کو بتایا: ’’ ہم اسے ہٹاتے تھے اور یہ دوبارہ آجاتا تھا۔ ہمارے خیال میں یہ بے ضرر وائرس ہے مگر ابھی اس بارے میں ہمیں یقین نہیں ہے۔‘‘
فوجی نیٹ ورک سے متعلق ماہرین کے مطابق ابھی یہ بات واضح نہیں ہوسکی کہ یہ وائرس حملہ کسی نے جان بوجھ کر کیا ہے یا اب تک یہ وائرس کس حد تک اس سسٹم میں پھیل چکا ہے، تاہم انہیں اس بات کا یقین ضرور ہے کہ اس سے اس ایئربیس کے تمام خفیہ اور عام کمپیوٹرز متاثر ہوئے ہیں۔ اس لیے اس بات کے امکانات موجود ہیں کہ خفیہ ڈیٹا ان کمپیوٹرز سے کہیں اور منتقل ہوچکا ہو۔
امریکی فوج سی آئی اے کے برعکس لیبیا یا افغانستان کی جنگ میں اپنے ڈرون طیاروں سے متعلق مشن کو خفیہ نہیں رکھتی۔ تاہم امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کی طرف سے پاکستان یا یمن میں القاعدہ کے شدت پسندوں کو ہلاک کرنے کے لیے استعمال کیے جانے والے ڈرون کو خفیہ رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ دو مئی کو اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد سے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں 30 سے زائد ڈرون حملے کیے جا چکے ہیں۔
وائرڈ میگزین کے مطابق امریکی ڈرون طیاروں سے متعلق نظام میں وائرس ممکنہ طور پر ’ریمووایبل ڈرائیوز‘ یا یو ایس بی ڈرائیوز کے ذریعے منتقل ہوا ہے۔ میگزین کے مطابق دنیا بھر میں ڈرون طیاروں سے متعلق یونٹوں کو خبردار کر دیا گیا ہے کہ وہ اس طرح کی ڈرائیوز استعمال نہ کریں۔ وائرڈ کے ذرائع کے مطابق اس مسئلے کو بھر پور توجہ دی جا رہی ہے تاہم کسی قسم کی افراتفری جیسی کیفیت نہیں ہے۔
رپورٹ: افسر اعوان
ادارت: عدنان اسحاق