انتہا پسندوں سے روابط کا شبہ، پاکستانی فوجی افسران کے خلاف تحقیقات
22 جون 2011پاکستان فوج کے ترجمان میجر جنرل اطہر عباس کے مطابق ان چار میجرز کو حراست میں نہیں لیا گیا بلکہ ان سے گرفتار بریگیڈیر سے روابط کے بارے میں پوچھ گچھ کی گئی ہے۔اس سے قبل پاکستانی فوج کے صدر دفتر میں تعینات بریگیڈیر علی خان کو حزب التحریر کے ساتھ مبینہ روابط کے الزام میں 6 مئی کو حراست میں لیا گیا تھا۔
فوج کے ترجمان میجر جنرل اطہر عباس نے بریگیڈیر علی خان کی گرفتاری کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے کالعدم تنظیم حزب التحریر کے ساتھ تعلقات ہیں اور اس بارے میں مزید تحقیقات کی جا رہی ہیں۔
بریگیڈیر علی خان کے وکیل کرنل (ر) انعام رحیم کا کہنا ہے کہ وہ اپنے مؤکل کی غیر قانونی حراست کے خلاف ہائی کورٹ سے رجوع کریں گے۔کرنل ریٹائرڈ انعام رحیم نے ڈوئچے ویلے سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ ان کے مؤکل پر ابھی تک کوئی فرد جرم عائد نہیں کی گئی ۔
انہوں نے کہا کہ آرمی ایکٹ کے مطابق فوج کے ا فسر کو گرفتاری کے وقت چارج شیٹ دی جاتی ہے کہ ان الزامات کی فہرست کے تحت آپ کو گرفتار کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’آرمی ایکٹ کے مطابق اگر کوئی بھی آدمی، جس کو چارج شیٹ دینے کے بعد گرفتار کیا گیا ہو اور اگر اس کا 32 دن تک ٹرائل نہ ہو سکے، تو اس کو قانوناً رہا کرنا لازمی ہوتا ہے۔ آج ان کو 32 دن سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن ٹرائل شروع نہیں ہوا۔ لہٰذا ان کی حراست غیر قانونی ہے‘‘۔
بریگیڈیر علی خان کی اہلیہ انجم علی نے بھی ذرائع ابلاغ سے باتیں کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے شوہر بے قصور ہیں اور وہ تین نسلوں سے آرمی کے ساتھ منسلک ہیں۔ ان کو بلا وجہ حراست میں لیا گیا ہے۔
حزب التحریر نامی جس تنظیم سے روابط کے الزام میں بریگیڈیر علی خان کو حراست میں لیا گیا، اس کا مقصد اسلامی ممالک میں خلافت کا نظام قائم کرنا ہے۔ پاکستان میں اس پر پابندی ہونے کے باوجود حزب التحریر کا میڈیا ونگ پوری طرح سے فعال ہے اور وہ مختلف ذرائع سے اپنے پیغامات ذرائع ابلاغ کے نمائندوں اور عام لوگوں تک پہنچا رہا ہے۔
کرنل (ر) انعام کے مطابق ان کے مؤکل پر حزب التحریر کے ساتھ روابط کا الزام غلط ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’جب مسٹر کیانی نے جی ایچ کیو میں خطاب کیا، اس سے قبل بریگیڈیر علی خان نے ان سے کچھ سوالات کئے تھے اور انہی سوالات کی وجہ سے خطاب کے فوراً بعد جنرل کیانی کے ذاتی حکم پر بریگیڈئیر علی خان کو حراست میں لیا گیا۔ آرمی ایکٹ کے تحت ان کو حق ہے کہ وہ اپنی فیملی سے ملاقات کر سکیں لیکن ابھی تک ان کی اپنے اہل خانہ سے بھی ملاقات نہیں کرائی گئی‘‘۔
خیال رہے کہ اس سے قبل بھی2009ء میں پاک فوج کے ایک کرنل کو حزب التحریر کے ساتھ روابط کے الزام میں زیر حراست لیا گیا تھا۔ تجزیہ نگار تین نسلوں سے فوج کے ساتھ منسلک بریگیڈیر علی کے کالعدم تنظیم کے ساتھ روابط کو فوجی قیادت کے لئے انتہائی تشویشناک قراردے رہے ہیں۔
رپورٹ: شکور رحیم، اسلام آباد
ادارت: امجد علی