خفیہ ایجنسیاں اپنی مرضی سے معلومات کا اشتراک کیوں کرتی ہیں؟
26 مارچ 2024انٹیلی جنس ایجنسیاں، جیسا کہ نام سے ہی پتہ چلتا ہے، خفیہ طور پر کام کرتی ہیں۔ یہ ایسی معلومات اکٹھا کرتی ہیں، جو قومی سلامتی کو فائدہ پہنچاتی ہیں یا جو پالیسی سازی کے وقت اپنی حکومتوں کو ان معلومات کے ذریعے فائدہ پہنچاتی ہیں۔
اس کے علاوہ یہ ایجنسیاں اتحادیوں کی بھی جاسوسی کرنے سے گریز نہیں کرتیں۔ امریکی خارجہ خفیہ سروس 'این ایس اے‘ نے برسوں تک اس وقت کی جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے سیل فون کی بھی نگرانی کی۔ اس بات کا اندازہ لگانا کوئی مشکل امر نہیں ہے کہ امریکہ نے ہر ممکن کوشش کی ہو گی کہ یہ معاملہ کبھی منظر عام پر نہ آئے۔
لیکن صورت حال اگر مختلف ہو تو خفیہ ایجنسیاں اپنی معلومات کا اشتراک خود اپنی مرضی سے کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر 23 فروری 2022 کو امریکہ نے جرمنی اور دیگر یورپی شراکت داروں کو اپنی ان معلومات سے آگاہ کیا کہ روس اگلی رات یوکرین پر اپنا حملہ شروع کر دے گا۔
دوسری جانب گزشتہ جمعے کو ماسکو کے مضافات میں ایک دہشت گردانہ واقعہ پیش آیا۔ اس تناظر میں امریکہ نے اس ریاست کے ساتھ بھی معلومات شیئر کیں، جو یقینی طور پر اس کی اتحادی نہیں سمجھی جاتی۔
امریکہ نے روس کو کون سی معلومات دیں؟
سات مارچ کے دن ماسکو میں امریکی سفارت خانے نے اپنے ہم وطنوں کو خبردار کرتے ہوئے کہا تھا ، ''انتہاپسندوں کا ماسکو میں لوگوں کے بڑے اجتماعات بشمول کنسرٹس پر حملہ کرنے کا فوری منصوبہ ہے۔ 48 گھنٹے اجتماعی تقریبات میں شرکت سے گریز کیا جائے۔‘‘
درحقیقت داعش کے مشتبہ دہشت گردوں نے اس کے 15 دن بعد حملہ کیا۔ تاہم امریکہ کا انتباہی مواد کروکس سٹی ہال میں ہونے والے حملے سے مماثل تھا، جس میں 130 سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔
اس حملے کے چند گھنٹے بعد ہی وائٹ ہاؤس کی قومی سلامتی کونسل کی ترجمان ایڈرین واٹسن نے سات مارچ کی وارننگ کا حوالہ دیا، ''امریکی حکومت نے یہ معلومات روسی حکام تک بھی پہنچائی، جیسا کہ ہماری خبردار کرنے کی پالیسی کے تحت طویل عرصے سے کیا جاتا رہا ہے۔‘‘ تاہم انہوں نے مزید معلومات یا ان خفیہ معلومات کا ذریعہ بتانے سے گریز کیا۔
جنگ کے وقت معلومات کا اشتراک کتنا فطری یا غیر معمولی؟
اگرچہ امریکہ یوکرینی جنگ میں براہ راست شریک نہیں لیکن وہ روس کو بیرونی سلامتی کے لیے خطرے کے طور پر دیکھتا ہے۔ دوسری جانب صدر پوٹن بھی باقاعدگی سے واشنگٹن کو دھمکیاں دیتے رہتے ہیں۔
سکیورٹی امور کے ماہر میشائل گوئیٹچن برگ کا جرمن ٹیلی وژن اے آر ڈی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ''میں سمجھتا ہوں کہ امریکیوں نے یہ انتباہ اس لیے عام کیا تھا کہ شاید اب ان کا روسی خفیہ اداروں کے ساتھ کوئی تعاون نہیں ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ''بنیادی طور پر اگر پتہ ہو تو ریاستیں ہمیشہ ہی منصوبہ بند دہشت گرد حملوں کے بارے میں خبردار کرنے کے لیے اپنی ایجنسیوں کا استعمال کرتی ہیں۔ یہ ماضی میں بھی روسی خفیہ اداروں کے تعاون سے ہوتا رہا ہے۔ تاہم میں سمجھتا ہوں کہ یہ تعاون اس جنگ کی وجہ سے رک گیا ہے، جو روس یوکرین کے خلاف جاری رکھے ہوئے ہے۔‘‘
بین الاقوامی دہشت گردی اور انٹیلی جنس تعاون
روس، ایران اور افغانستان میں ہونے والے حالیہ حملوں سے ثابت ہوتا ہے کہ داعش کی شاخ اسلامی ریاست صوبہ خراسان (آئی ایس پی کے) جیسے گروپ قومی سرحدوں پر نہیں رکتے۔ اس حوالے سے عوامی تحفظ کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ مختلف ممالک کے سربراہان بھی مل کر کام کریں۔
سکیورٹی امور کے ماہر میشائل گوئیٹچن برگ کے مطابق اگر اس تناظر میں دیکھا جائے تو ممالک کے درمیان اچھے روابط موجود ہیں، ''خاص طور پر مغربی خفیہ ایجنسیوں کے مابین معلومات کا مسلسل تبادلہ کیا جاتا ہے، تجاویز پیش کی جاتی ہیں اور پھر متعلقہ تفتیشی حکام کی طرف سے اس پر کارروائی بھی کی جاتی ہے۔ اکثر یہ پتہ چلتا ہے کہ تجاویز غیر متعلقہ ہوتی ہیں۔ لیکن جہاں کوئی چیز دریافت ہوتی ہے تو وہاں لوگوں سے تفتیش کی جاتی ہے اور انہیں گرفتار بھی کیا جاتا ہے۔‘‘
کیا ہمیشہ سے ایسا ہی رہا ہے؟
امریکی خفیہ ایجنسیاں سن 1947 کے خفیہ سروس قانون اور 1981 کے صدر رونلڈ ریگن کے حکم نامے کا حوالہ دیتی ہیں، جن میں ''خبردار کرنے کی ذمہ داری‘‘ سے متعلق ہدایات موجود ہیں۔ میشائل گوئیٹچن برگ کے کے مطابق حالیہ کچھ برسوں کے دوران اس طرح کی معلومات کو دوسرے ممالک تک منتقل کرنے کی شدت میں اضافہ ہوا ہے۔
وہ کہتے ہیں، ''بنیادی طور پر 11 ستمبر کے واقعے نے اس میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ یہ فیصلہ کیا گیا کہ ایسا دوبارہ نہیں ہونا چاہے اور اہم معلومات کا تبادلہ ہونا چاہیے، جو آج تک جاری ہے۔‘‘
ا ا / م م (ڈیوڈ اہل)