انفرادی کارروائیاں کرنے والے مسلمان انتہا پسند کتنے خطرناک؟
15 جولائی 2016جرمنی میں جرائم سے متعلقہ وفاقی محکمے ایسے دہشت گردوں سے بار بار خبردار کرتے رہتے ہیں، جو انفرادی حیثیت میں کارروائی کر سکتے ہیں۔ اسی حوالے سے ڈی ڈبلیو کے وولف گانگ ڈِک کے ایک سوال کے جواب میں ٹوپہوفن نے، جو جرمن شہر ایسن میں ’بحرانوں سے بچاؤ کے مرکز‘ IFUS کے ڈائریکٹر بھی ہیں، بتایا کہ اگر سلفی اور جہادی پس منظر رکھنے والا کوئی شخص کسی گروپ کے ساتھ مل کر کام نہ کر رہا ہو تو پھر اُس کی جانب سے اچانک کسی کارروائی سے پہلے ایسی کوئی علامات نظر نہیں آتیں، جن سے اُس کے ارادوں کا پتہ چل سکتا ہو۔
ٹوپہوفن نے کہا کہ سکیورٹی ادارے ایک عرصے سے ان خدشات کا اظہار کر رہے ہیں کہ انفرادی حیثیت میں حملے کرنے والے دہشت گرد ایک بڑا خطرہ ہیں۔ کوئی بھی ایسا شخص، جس پر سکیورٹی حکام کو شبہ نہ ہو اور وہ پولیس کی نظروں میں نہ آیا ہو، وہ ایک طرح کا ٹائم بم ہے، جو کسی بھی وقت چل سکتا ہے۔ ایسا شخص کسی بھی وقت کارروائی کر سکتا ہے اور ایسی کسی کارروائی کو روکنا پھر بہت مشکل ہو جاتا ہے۔
اس سوال کے جواب میں کہ اس طرح کے ممکنہ انفرادی حملہ آوروں تک پہنچنے کے لیے کیا طریقے اختیار کیے جاتے ہیں، ٹوپہوفن نے بتایا کہ جرمنی میں بالخصوص بڑے شہروں میں واقع اسلامی مراکز پر نظر رکھتے ہوئے ایسے افراد پر بھی توجہ دی جاتی ہے، جو براہِ راست انتہا پسندانہ سرگرمیرں میں ملوث نہیں ہوتے لیکن اُنہوں نے کہا کہ اگر ایسے لوگ کبھی زبان یا عمل سے انتہا پسندی کا اظہار نہ کریں تو پھر اُن کا پتہ چلانا بہت مشکل ہوتا ہے۔
2011ء میں فرینکفرٹ ایئرپورٹ پر پیش آنے والا وہ واقعہ ایک ایسے ہی انفرادی حملہ آور کی کارروائی تھی، جس میں کوسووو کے ایک اکیس سالہ نوجوان ارید آکا نے دو امریکی فوجیوں کو سر میں گولی مار کر ہلاک اور دو کو شدید زخمی کر دیا تھا۔
ٹوپہوفن کے مطابق ایسے حملہ آور اپنے حالات سے پریشان ایسے لوگ ہوتے ہیں، جنہیں پیشہ ورانہ زندگی میں اپنا کوئی مستقبل نظر نہیں آ رہا ہوتا اور جو معاشرے سے الگ تھلگ ہونے کی بناء پر انتہا پسندانہ پراپیگنڈے کا آسانی سے شکار ہو جاتے ہیں۔
ٹوپہوفن نے کہا کہ ’جہادی‘ عناصر کی جانب سے سوشل میڈیا پر ایسے پیغامات عام ہیں کہ آپ کو چاقو، چھری یا گاڑی، جو بھی ملے، اُسے لے کر انسانوں کے ہجوم میں گھُس جائیں اور لوگوں کو مارنا شروع کر دیں، اسی لیے ہر طرح کے عوامی اجتماعات میں دہشت گردانہ حملوں کا خطرہ موجود رہتا ہے۔