انڈونیشیا میں آتش فشاں پھر پھٹ پڑا، 65 افراد ہلاک
5 نومبر 2010ماؤنٹ میراپی انڈونیشیا کے جزیرے جاوا پر واقع ہے، جو اس سے پہلے 26 اکتوبر کو پھٹا تھا اور اب ہلاکتوں کی مجموعی تعداد ایک سو سے تجاوز کر گئی ہے۔ یوگیاکارتا کے ایک ہسپتال میں ڈاکٹر سُسینو وِبوو نے جمعہ کو ہونے والی ہلاکتوں کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ہلاک ہونے والوں میں سات بچے بھی شامل ہیں۔
یوگیاکارتا کے ہسپتال میں ہی جمعہ کو 58 لاشیں لائی گئیں۔ ایمرجنسی ذرائع کا کہنا ہے کہ امدادی کارروائیاں جاری ہیں۔ ہنگامی امدادی اداروں نے ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ بھی ظاہر کیا ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز نے حکام کے حوالے سے گزشتہ ہفتے سے اب تک ہونے والی ہلاکتوں کی مجموعی تعداد 109بتائی ہے۔ انڈونیشی حکام کے مطابق متاثرہ علاقوں سے اب تک ڈیڑھ لاکھ افراد نقل مکانی کر چکے ہیں۔
اس علاقے پر دھوئیں کے بادل چھائے ہوئے ہیں، جس سے دن بھی رات میں بدل گیا ہے۔ وہاں موجود روئٹرز کے ایک فوٹوگرافر نے بتایا، ’دن کے وقت اندھیرا چھایا ہوا ہے اور گاڑیوں کی ہیڈلائٹس آن ہیں۔ کچھ دکھائی نہیں دے رہا۔ ایسا لگتا ہے، جیسے ریت برس رہی ہو۔‘
یوگیاکارتا کا ہوائی اڈہ بھی بند کر دیا گیا ہے، جبکہ پروازیں قریبی شہر سولو بھیجی جا رہی ہیں۔ ایک حکومتی ماہر برکانیات سورونو کا کہنا ہے کہ آتش فشاں سے اٹھنے والی راکھ چار کلومیٹر کے علاقے میں پھیلی ہوئی ہے جبکہ 20 کلومیٹر رداس تک کے دیہات کو خالی کرا لیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا، ’یہ آتش فشاں ماضی کے مقابلے میں زیادہ خطرناک بن چکا ہے، اس کے بارے میں کوئی پیشین گوئی ممکن نہیں رہی۔‘
اُدھر انڈونیشیا کے صدر سسیلو بامبانگ یودھویونو نے کہا ہے کہ اس قدرتی آفت کے باعث ہلاک ہونے والے مویشیوں کے مالکان کو مالی ازالے کی ادائیگیاں کی جائیں گی۔ ان کے اس اعلان کا مقصد متاثرہ علاقے چھوڑنے کے سلسلے میں شہریوں کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔ صدر نے کہا، ’میراپی کے ٹھنڈا پڑنے کا کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا۔‘
دوسری جانب انڈونیشیا کو سماٹرا کے جنوب میں مینتاوائی جزائر پر گزشتہ ہفتے آنے والے سونامی کے نتائج کا سامنابھی ہے، جس کے نتیجے میں کم از کم 431 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
خیال رہے کہ انڈونیشیا بحرالکاہل کے ’رِنگ آف فائر‘ یعنی آتشیں حصار کہلانے والے علاقے میں آتا ہے، جہاں زمینی پرتیں آتش فشاں پہاڑوں کے پھٹنے اور زلزلوں کا باعث بنتی ہیں۔ ماؤنٹ میراپی کو وہاں کا سب سے طاقتور آتش فشاں قرار دیا جاتا ہے۔
رپورٹ: ندیم گِل
ادارت: مقبول ملک