اوباما کی پالیسیوں کو الٹنے کا عزم
4 نومبر 2010ری پبلکن جون بویئھنر کا کہنا ہے کہ انتخابات کے بعد اب واضح ہوچکا ہے کہ امریکی عوام ایک چھوٹی، کم خرچ اور مزید احتساب کے قابل حکومت چاہتے ہیں۔ جون بویئھنر متوقع طور پر ایوان نمائندگان کے اگلے سپیکر ہوں گے۔ ری پبلکنز کی حالیہ کامیابی سے ڈیموکریٹ سپیکر نینسی پلوسی کو اپنی نشست چھوڑنی پڑے گی جبکہ ایوان نمائندگان کی اہم کمیٹیوں کا اختیار بھی ری پبلکنز کے ہاتھ میں آجائے گا، جن میں مسلح خدمات سے متعلق کمیٹی، بجٹ کمیٹی اور آمد و رفت کی کمیٹی بھی شامل ہے۔
جون بویئھنراور سینٹ میں ری پبلکن لیڈر مچ مک کونیل نے واشنگٹن میں صحافیوں کو بتایا کہ جن پالیسیوں کو ’رول بیک‘ کیا جاسکتا ہے ان میں صحت عامہ اور مالیاتی نظام میں متعارف کرائی گئی اصلاحات شامل ہیں۔ یہ پالیسیاں ڈیموکریٹس کے انتخابی منشور میں سرفہرست تھیں۔ ایک بات البتہ واضح ہے کہ اگلے سال جب کانگریس میں کارروائی کا آغاز ہوگا تو سینٹ میں موجود ڈیموکریٹس ایوان نمائندگان کی تجاویز کو روک سکتے ہیں اور کسی بھی قانون کو حتمی شکل میں ڈھالنے کا اختیار بہرحال صدر اوباما کے ہاتھ ہی میں رہے گا۔
منگل کے انتخابات کے بعد ایوان نمائندگان میں ری پبلکنز کو اکثریت مل گئی ہے جبکہ سینیٹ میں بھی ڈیموکریٹس کی اکثریت میں کمی واقع ہوئی ہے۔ امریکی عوام میں بیروزگاری کے سبب بڑھتی ہوئی بے چینی اور صدر اوباما کی قائدانہ صلاحیتوں پر عدم اعتماد کو اس صورتحال کی وجہ سمجھا جارہا ہے۔ جون بویئھنر اور کونیل کے بقول امریکی عوام موجودہ انتظامیہ کا ایجنڈہ مسترد کرچکے ہیں اسی لئے اب حکومت سے محض ان امور پر تعاون کیا جائے گا، جو بقول ان کے امریکی عوام کے مفاد میں ہیں۔
نتائج سے مایوس امریکی صدر نے شکست تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ واقعی امریکی عوام تنگ آچکے تھے اورمسائل کا جلد حل چاہتے تھے۔ اوباما نے یہ بھی تسلیم کیا کہ قانون سازی میں اب اتفاق رائے کا حصول مشکل ہوجائے گا۔ ری پبلکنزارکان تاریخی طورپرایوان نمائندگان کی 60 نشستیں اپنے نام کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔
رپورٹ: شادی خان سیف
ادارت: عاطف بلوچ