آذربائیجان کا نگورنو کاراباخ پر مکمل کنٹرول
21 ستمبر 2023آذربائیجان کی حکومت کی جانب سے نگورنو کاراباخ کے علاقے میں فوجی آپریشن شروع کیے جانے کے بعد اب آذربائیجان جمعرات کو آرمینیائی علیحدگی پسندوں کے ساتھ مذاکرات کر رہا ہے۔
یہ تنازعہ رواں ہفتے شدت اختیار کر گیا تھا لیکن بدھ کے روز جنگ بندی کے معاہدے کے بعد یہ سلسلہ اچانک رک گیا تھا اور جنگجوؤں نے ہتھیار ڈالنے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔
ہم مذاکرات کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟
یہ مذاکرات آذربائیجان کے دارالحکومت باکو کے مغرب میں 200 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع یولاخ شہر میں ہو رہے ہیں۔
مذاکرات آذربائیجان کی حکومت کی جانب سے نگورنو کاراباخ میں علیحدگی پسندوں کے ساتھ جنگ بندی کے معاہدے کے اعلان کے بعد شروع ہو رہے ہیں۔ اس اعلان کے نتیجے میں آذربائیجان کے صدر الہام علیئیف نے کہا کہ ان کے ملک نے آرمینیائی اکثریتی علاقے کا مکمل کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔
روسی جھنڈوں اور روسی نمبر پلیٹوں والی گاڑیاں بھی یولاخ میں بات چیت کے لیے پہنچیں۔
آذربائیجان نے کہا ہے کہ مذاکرات میں نگورنو کاراباخ کے انضمام پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔ علیئیف نے کہا ہے کہ "کاراباخ کی آرمینیائی آبادی ہمارے شہری ہیں اور ان کے مذہبی اور ثقافتی حقوق کا احترام کیا جائے گا۔‘‘
ترکی کے صدر رجب طیب ایردوآن نے جمعرات کے روزعلیئیف سے ٹیلی فون پر بات چیت کرتے ہوئے آذربائیجان کے لیے 'مکمل حمایت' کا عزم ظاہر کیا ہے۔
آرمینیائی نسل کے لوگوں کا کہنا ہے کہ مذاکرات کے دوران نگورنو کاراباخ کے مرکزی شہر میں فائرنگ کی آوازیں سنی گئیں۔ انہوں نے کہا کہ آذربائیجان نے جنگ بندی کی خلاف ورزی کی ہے۔
آذربائیجان نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ غلط معلومات پھیلائی جا رہی ہیں۔
روسی وزارت دفاع نے جمعرات کو کہا کہ نگورنو کاراباخ میں روسی فوجیوں نے علاقے کے خطرناک علاقوں سے پانچ ہزار کاراباخ آرمینیائی باشندوں کو نکال لیا ہے۔
خدشات کے پیش نظر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس
جمعرات کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نگورنو کاراباخ پر ایک اجلاس منعقد کر رہی ہے۔ امریکہ، جو تنظیم کا مستقل رکن ہے، نے آذربائیجان کے حملے کے بعد خطے میں انسانی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق یورپی کونسل کے صدر نے آذربائیجان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ نگورنو کاراباخ میں آرمینیائی باشندوں کی حفاظت کو یقینی بنائے۔ یورپی یونین کے عہدیدار نے علاقے میں لوگوں کی انسانی ضروریات کا خیال رکھنے پر زور دیا۔
آرمینیا کے سفیر اندرانک ہوہانیسیان نے جنیوا میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کو بتایا کہ نگورنو کاراباخ میں 'نسل کشی‘ جاری ہے اور اسے 'انسانیت کے خلاف جرم‘ قرار دیا ہے۔
آذربائیجان اور آرمینیا 1991 میں سوویت یونین کے خاتمے کے بعد سے نگورنو کاراباخ کے معاملے پر دو جنگیں لڑ چکے ہیں۔
نگورنو کاراباخ کے علیحدگی پسندوں نے دعویٰ کیا ہے کہ منگل کو آذربائیجان پر حملے شروع ہونے کے بعد سے اب تک کم از کم 200 افراد ہلاک اور 400 سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔ آذربائیجان کا کہنا ہے کہ وہ 'انسداد دہشت گردی' کی کارروائی میں مصروف ہے۔
آرمینیائی شہریوں نے جنگ بندی کی مذمت کی ہے اور وزیر اعظم نکول پاشینیان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ہے۔ دریں اثنا پاشینیان نے کہا ہے کہ آرمینیائی علیحدگی پسندوں اور آذربائیجان کے درمیان ہونے والی جنگ بندی سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔
پاشینیان نے جمعرات کے روز کہا کہ امن کا راستہ 'آسان نہیں ہے‘ لیکن پھر بھی اس پر عمل کیا جانا چاہیے۔
ش ح/ ا ا (اے ایف پی، روئٹرز، ڈی پی اے)