1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’اٹلی میں مہاجرین کی ’حد‘ مقرر کی جانا چاہیے‘

عاطف توقیر
7 جولائی 2017

اطالوی وزیراعظم ماتیو رینزی نے جمعے کے روز کہا ہے کہ وہ ملک میں تارکین وطن کی آمد کی ایک حد مقرر کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس متعین تعداد سے زائد تارکین وطن کو اٹلی میں قبول نہیں کیا جانا چاہیے۔

https://p.dw.com/p/2gAZB
Italien Palermo - 8000 Flüchtlinge im Mittelmeer gerettet
تصویر: picture-alliance/ROPI/I. Petyx

رینزی نے یہ بیان حکمران جماعت ڈیموکریٹک پارٹی کے اجلاس کی صدارت سے قبل دیا۔ اٹلی شمالی افریقہ سے لاکھوں تارکین وطن کی وطن آمد پر پریشان ہے۔

اپنی جماعت کی ویب سائٹ پر ایک ویڈیو پیغام میں رینزی نے کہا، ’’مہاجرین کے اٹلی پہنچنے کی ایک حتمی حد مقرر کی جانا چاہیے۔ ہمیں ہر کسی کو خوش آمدید نہ کہنے پر برا محسوس نہیں کرنا چاہیے۔‘‘

ان کا اس بیان میں مزید کہنا تھا، ’’ہمیں سب کو بچانا ہے مگر ہم سب کو قبول نہیں کر سکتے۔‘‘

اٹلی کو شمالی افریقہ سے تارکین وطن کے ایک سیلاب کا سامنا ہے۔ رواں برس اب تک بحیرہء روم کے ذریعے اٹلی پہنچنے کی کوشش کرنے والے دو ہزار دو سو تارکین وطن اپنی جان گنوا چکے ہیں۔

بین الاقوامی تنظیم برائے مہاجرت کا کہنا ہے کہ رواں برس قریب ایک لاکھ تارکین وطن اٹلی پہنچے، جن میں سے 85 ہزار کو اٹلی نے قبول کیا ہے۔ مہاجرین کی اس بڑی تعداد میں آمد کو سن 2015ء میں ترکی کے ذریعے یورپ پہنچنے والے افراد کے بہاؤ سے تعبیر کیا جانے لگا ہے۔ سن 2015ء میں قریب ایک ملین تارکین وطن ترکی سے بحیرہء ایجیئن کے ذریعے یونان اور پھر دیگر یورپی ممالک پہنچے تھے۔

Ramadan in Sizilien
اٹلی میں رواں قریب ایک لاکھ تارکین وطن داخل ہوئےتصویر: DW/D.Cupolo

تارکین وطن کی اس بڑی تعداد میں آمد کے تناظر میں اٹلی اور اس کے ہم سایہ ملک آسٹریا کے تعلقات میں بھی کشیدگی پیدا ہو گئی ہے۔ آسٹریا کی حکومت نے رواں ہفتے دھمکی دی تھی کہ وہ اٹلی سے تارکین وطن کی آمد روکنے کے لیے سرحد پر فوج تعینات کر کے چیکنگ کا نظام دوبارہ رائج کر سکتی ہے۔

جمعرات کو یورپی وزرائے داخلہ نے یورپی کمشین سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اٹلی کو درپیش اس بحران کے حل کے لیے فوری طور پر کوئی منصوبہ پیش کرے۔ یورپی کمشین اٹلی کو تارکین وطن کے بحران کے تناظر میں 35 ملین یورو ادا کر چکا ہے، جب کہ تجاویز دی جا رہی ہیں کہ لیبیا اور تارکین وطن سے متعلق دیگر ممالک کے ساتھ مل کر اس بحران کو حل کیا جانا چاہیے۔