اپوزیشن کی احتجاجی تحریک، تبدیلی لا بھی سکتی ہے؟
30 نومبر 2020سوموار کے روز ملتان میں ہونے والے اپوزیشن کے جلسے میں اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم نے 'حکومتی جبر‘ کے خلاف جمعے اور ہفتے کو پورے ملک میں احتجاجی مظاہرے کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یاد رہے، ملک کی گیارہ اپوزیشن جماعتیں تیرہ دسمبر کو پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں حکومت کے خلاف ایک بڑا احتجاجی جلسہ بھی کرنے جا رہی ہیں۔
ملتان میں ہونے والے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی صاحب زادی آصفہ بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ اس جلسے میں بڑی تعداد میں جمع ہونے والے لوگوں نے حکومت کے خلاف فیصلہ سنا دیا ہے اور ان کے مطابق اب حکومت کو جانا ہو گا۔ اس موقع پر پاکستان مسلم لیگ نون کی رہنما مریم نواز شریف نے اپنی تقریر میں وزیر اعظم عمران خان کا نام لیے بغیر کہا کہ اس سے پہلے کہ پی ڈی ایم آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کرے خود حکومت چھوڑ دو،''پی ڈی ایم فیصلہ کرنے والی ہے پھر نہ کہنا کہ بتایا نہیں۔‘‘
کوئی فرق نہیں پڑ رہا
پاکستان کے ایک سینیئر صحافی طاہر ملک نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ لگتا یوں ہے کہ نہ تو اپوزیشن کی جماعتیں اپنے احتجاج سے حکومت ختم کر سکیں گی اور نہ ہی عمران حکومت اس دباؤ کی وجہ سے اپنی کارکردگی بہتر بنانے کی کوشش کرے گی،''میرے خیال میں اپوزیشن شور کرتی رہے گی اور پی ٹی آئی حکومت کرتی رہے گی تاوقتیکہ کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اس صورتحال میں فیصلہ کن پوزیشن لینے پر تیار ہو جائے۔‘‘ ان کے بقول پاکستان کی سیاسی تاریخ میں جلسوں سے حکومتیں بدلنے کی روایت موجود نہیں ہے۔
لانگ مارچ کا منصوبہ
حکومت اور اپوزیشن میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے باوجود اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بنا کر رکھنے کے موقف کے حامی پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کی طرف 'ملک کو موجودہ بحرانوں‘ سے نکالنے کے لیے قومی مکالمے (ڈائیلاگ) کا جو مطالبہ سامنے آیا ہے،اس کا اسٹیبلشمنٹ کے حامی ایک وفاقی وزیر شیخ رشید نے خیر مقدم کیا ہے۔ یہ پیش رفت ایک ایسے موقع پر سامنے آ رہی ہے جب کئی تجزیہ نگار اسٹیبلشمنٹ اور اپوزیشن کے مابین پس پردہ مذاکرات کا عندیہ دے رہے ہیں۔
پی ڈی ایم کے ذرائع کے مطابق حزب اختلاف کا اتحاد اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کرنے کے علاوہ اس تجویز پر بھی غور کر رہا ہے کہ اگر حکومت ہٹانے کےعوامی مطالبے کو قابل توجہ نہ سمجھا گیا تو پھر اسٹیبلشمنٹ کی ایک اہم شخصیت کے استعفی کا مطالبہ بھی سامنے آ سکتا ہے۔
اسٹیبلشمنٹ کا رویہ اہم
طاہر ملک کہتے ہیں کہ پاکستان میں حکومت کی تبدیلی کا انحصار بڑی حد تک اسٹیبلشمنٹ کے رویے پر ہے۔ پاکستان کے موجودہ سیاسی منظر نامے نے حکومت اور اپوزیشن دونوں کی ساکھ کا پول کھول کر رکھ دیا ہے، ایک طرف اپوزیشن ہے جو زمینی حقائق کے برعکس حکومت کے خاتمے کی تاریخیں دے رہی ہے اور دوسری طرف حکومت ہے جو سارے احتجاج سے بے پروا ہو کر عوامی مسائل کے حل کی بجائے اپنی روایتی ڈگر پر چل رہی ہے اور سارا زور احتساب کرنے کے بلند بانگ دعوؤں پر لگایا جا رہا ہے،''اس صورت حال میں اصل ناکامی پاکستان کے عوام کے حصے میں آ رہی ہے جن کو اپوزیشن اور حکومت سمیت کسی کی مخلصانہ توجہ میسر نہیں بلکہ انہیں صرف سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔‘‘
یوٹرن اور پھر یوٹرن
طاہر ملک کے بقول حکومت تو مسلسل یو ٹرن لینے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے،''پہلے کہا گیا کہ کورونا کے حوالے سے ایس او پیز پر سختی سےعمل درآمد کروایا جائے گا۔ پھر اس معاملے سے چشم پوشی اختیار کر لی گئی، پہلے کہا گیا کہ جلسے کی اجازت نہیں دیں گے پھر اپوزیشن کی طرف سے ڈنڈوں والا بیان آنے کے بعد کہا گیا کہ جلسے کی اجازت ہے۔ فضل الرحمن کے خلاف نیب نے کارروائی کا اعلان کیا تو طاقتور حلقوں کے حوالے سے ان کے ایک بیان کے بعد پتہ ہی نہیں چل رہا کہ نیب کی تحقیقات کدھر گئیں۔ اب نیب کی طرف سے سینٹ کے ڈپٹی چیئرمین سلیم مانڈوی والا کے خلاف کاروائی کا اعلان ہوا تو ان کے دھمکی آمیز بیان کے بعد نیب بھی ٹھنڈی ہو کر بیٹھ گئی۔ یہ پاکستان ہے یہاں معاملات اسی طرح چلتے رہیں گے۔ میرا خیال ہے کہ فی الحال یہ سب پرانی تنخواہ پر کام کرتے رہیں گے۔‘‘
حکومت خود اپنے لیے خطرہ
سینیئر صحافی طاہر ملک نے ڈی ڈبلیو کو مزید بتایا کہ حکومت کے لیے سب سے بڑا خطرہ خود حکومت ہی ہے،''موجودہ حکومت کے دور حکومت میں مہنگائی، بے روزگاری اور غربت میں اضافہ ہوا ہے۔ حکومت اگر اپنی کارکردگی بہتر کر لے تو اس سے اپوزیشن کی تحریک اپنی موت آپ مر جائے گی۔ لیکن اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ حکومت اپنے آپ کو درست کر لے گی۔ ‘‘
جلسے جلوس حقائق تبدیل نہیں کر سکتے
پاکستان کے ایک اور سینئر صحافی اور اردو زبان کے ایک قومی روزنامے کے گروپ ایڈیٹر سید ارشاد عارف نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کسی بھی قسم کی ساز باز سے اپوزیشن کا ووٹ کو عزت دو والا بیانیہ اپنی موت آپ مر جائے گا۔ ان کے خیال میں سیاسی جلسے جلوس خواہ کتنے ہی بڑے کیوں نہ ہوں، وہ پاکستان کے سیاسی حقائق کو تبدیل نہیں کر سکتے۔‘‘
ان کے بقول اپوزیشن کی بدقسمتی یہ بھی ہے کہ کورونا بحران کی وجہ سے بھی عوام کسی سیاسی تحریک کے لیے باہر نکلنے کے لیے فی الحال آمادہ نظر نہیں آ رہے ہیں،''میرے خیال میں ملتان میں ہونے والے جلسے کو حکومت نے جس احمقانہ طریقے سے ڈیل کیا ہے اس سے ان کی سبکی ہوئی ہے اگر کورونا بحران کے پیش نظر انہوں نے جلسے کی اجازت نہ دینے کا فیصلہ کیا تھا تو انہیں اس پر قائم رہنا چاہیے تھا۔ دوسری طرف اگر حکومت اس جلسے کی پہلے ہی اجازت دے دیتی تو اپوزیشن کو اتنی توجہ نہ ملتی۔ اس طرح نہ آسمان گرتا اور نہ زمین پھٹتی۔‘‘