1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایرانیوں کی آواز کو دبایا نہیں جا سکتا، شیریں عبادی

صائمہ حیدر شبنم فان ہائن
5 جنوری 2018

ایران کی پہلی سابق خاتون جج اور نوبل انعام یافتہ شیریں عبادی نے ایران میں ہوئے حالیہ حکومت مخالف مظاہروں کے تناظر میں کہا ہے کہ حکومت بےروز گاری اور بھوک و افلاس کے شکار ایرانیوں کی آواز کو ہمیشہ کے لیے نہیں دبا سکتی۔

https://p.dw.com/p/2qPlr
Iranische Anwältin und Menschenrechtsaktivistin Shirin Ebadi
نوبل انعام یافتہ خاتون شیریں عبادیتصویر: picture alliance/Photoshot/ Luciano Movio/Sintesi

شیریں عبادی ایران کی پہلی خاتون جج رہ چکی ہیں، تاہم سن انیس سو اناسی میں ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد انہیں اس عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا اور وہ تب سے ایران میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی سب سے اہم شخصیت ہیں۔ عبادی کو سن 2003 میں نوبل انعام سے نوازا گیا تھا جبکہ سن 2009 سے وہ جلا وطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

ڈی ڈبلیو سے ایک انٹرویو میں شیریں عبادی نے ایران کے موجودہ سیاسی منظر نامے اور حالیہ احتجاجی مظاہروں پر بات چیت کی۔

ڈی ڈبلیو: ایران میں حکومت مخالف مظاہرے ہر طرف سکیورٹی فورسز کی موجودگی کے باعث کمزور پڑتے نظر آتے ہیں۔ کیا آپ سمجھتی ہیں کہ یہ مظاہرے کسی بڑی تحریک میں تبدیل ہو سکیں گے؟

شیریں عبادی: ایران کی سڑکوں پر عوام کی موجودگی اُن کا حق ہے جس کی ضمانت انہیں ملک کا آئین دیتا ہے۔ ایران کے آئین کے مطابق عوامی مارچ اور اجتماعات کو حکومت سے اجازت کی ضرورت نہیں۔ لیکن ایرانی حکومت نے ہمیشہ عوام کے حقوق کو نظر انداز کیا ہے۔ اس بار بھی حکومت کی جانب سے دباؤ اور تشدد کے باعث سڑکوں پر لوگوں کی تعداد کم ہوئی ہے۔ لیکن میں پھر بھی یہ کہوں گی کہ چھوٹے شہروں میں اب تک لوگ سڑکوں پر احتجاج کے لیے نکل رہے ہیں اور نکلتے رہیں گے۔ ایران کی حکومت زیادہ دیر تک بھوک اور افلاس کے مارے ان عوام کو خاموش نہیں رکھ پائے گی۔

Iran Demonstration für die Regierung in Teheran
تصویر: Getty Images/AFP/A. Kenare

ڈی ڈبلیو: لیکن یہ بھی صاف دیکھا جا سکتا ہے کہ سوسائٹی کی بڑی اکثریت نے حکومت مخالف مظاہرین کا ساتھ نہیں دیا جب کہ ملک کی مڈل کلاس بھی اس احتجاج سے دور ہی رہی ہے۔ ایسا کیوں ہے؟

شیریں عبادی: ملک کی مڈل کلاس نے اپنے طریقے سے مظاہرین کا ساتھ دیا ہے۔ لیکن سیاسی قیادت نہ تو ایران کی مڈل کلاس اور نہ ہی معاشی طور پر مضبوط اشرافیہ کے ہاتھوں میں ہے۔ اِن اشرافیہ نے بھی ایک بیان جاری کرتے ہوئے حکومت مخالفین کی حمایت کی ہے۔ اس کے علاوہ انسانی حقوق کے کارکنان، وکلا اور ادیبوں کی طرف سے بھی ان مظاہروں کے حق میں بیان جاری کیے گئے۔ مڈل کلاس احتجاج کرنے والے مظاہرین کی طرح بھوکی نہیں مر رہی پھر بھی اس نے مظاہروں کی حمایت کی ہے۔

ڈی ڈبلیو: بظاہر ایسا لگتا ہے کہ بہت سے لوگ موجودہ سیاسی نظام سے مطمئن نہیں پھر بھی اُن کا کہنا یہ ہے کہ انہیں اس نظام کا کوئی متبادل بھی نظر نہیں آتا۔ آپ کی رائے میں حکومت کو موجودہ نظام کو بہتر بنانے کے لیے پہلا قدم کیا اٹھانا چاہیے؟

شیریں عبادی: لوگوں کے مطالبات بالکل واضح ہیں۔ ایرانی عوام اقوام متحدہ کی نگرانی میں ایک ریفرنڈم کا انعقاد چاہتے ہیں جس میں وہ اپنے مطالبات پیش کر سکیں اور یہ بھی بتا سکیں وہ کس قسم کی حکومت چاہتے ہیں۔ میرا پیغام ایرانی عوام کو یہی ہے کہ وہ تشدد کا راستہ اپنائے بغیر حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لیے اپنا قانونی حق استعمال کریں۔