ایرانی جوہری سائنسداں کی ملک واپسی
14 جولائی 2010تہران حکومت نے الزام لگا یا تھا کہ امیری کو سعودی عرب کے خفیہ ادارے نے امریکی انٹیلی جنس سروس سی آئی اے کے حوالے کیا تھا۔ گزشتہ پیرکوشاہرام امیری واشنگٹن میں پاکستانی سفارتخانے میں قائم ’ ایران انٹرسٹ سیکشن‘ کے دفتر میں آئے۔ ایسو سی ایٹڈ پریس میں چھپنے والے پاکستانی سفارتخانے خانے کے ایک ترجمان کے بیان کے مطابق شاہرام امیری نے سفارتخانے میں یہ بیان دیا کہ انہیں اُن کے اغواکنندگان نے واشنگٹن میں پاکستانی سفارتخانے میں قائم ’ ایران انٹرسٹ سیکشن‘ کے دفتر پہنچایا۔ واضح رہے کہ ایران اور امریکہ کے درمیان کسی قسم کے سفارتی تعلقات نہیں پائے جاتے ہیں اس لئے واشنگٹن میں تہران حکومت کی سفارتی نمائندگی پاکستان کرتا ہے۔ اسی لئے وہاں پاکستانی سفارتخانے میں ایران کے قونصل خانے کے کام کی انجام دہی کے لئے ’ ایران انٹرسٹ سیکشن‘ کا دفتر قائم ہے۔
اطلاعات کے مطابق ایران کے سرکاری ٹیلی وژن نے منگل کواسی دفتر میں امیری کا انٹرویو کیا جو اُن کے تہران پہنچنے پر نشر کیا جائے گا۔ دریں اثناء ایرانی خبر رساں ادارے ارنا کو بیان دیتے ہوئے ایرانی وزارت خارجہ کے ایک ترجمان ’رامین مہمان پرست‘ نے کہا’ شاہرام امیری امریکی سرزمین چھوڑ کر ایران کی طرف پرواز کر چُکے ہیں اور یہ اسلامی جمہوریہ ایران اور واشنگٹن میں پاکستانی سفارتخانے کی مشترکہ کوششوں سے ممکن ہوا ہے‘۔ انہوں نے مزید بتایا کہ امیری کو پہلے کسی تیسرے ملک پہنچایا جائے گا، جہاں سے وہ تہران کے لئے روانہ ہوں گے۔ ایران کے اس دعویٰ کے بارے میں کہ امیری کو امریکی خفیہ ادارے نے اغوا کیا تھا، مہمان پرست نے کہا ہے کہ اس معاملے کو تہران حکومت سفارتی اور قانونی طور پر آگے بڑھائے گی۔
اُدھر منگل کو امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے اس امر کی تصدیق کی تھی کہ ایرانی جوہری سائنسدان واشنگٹن میں پاکستانی سفارتخانے کے زیر نگرانی کام کرنے والے ’ ایران انٹرسٹ سیکشن‘ کے دفتر میں ہیں۔ کلنٹن نے اپنے بیان میں کہا’ امیری اپنی مرضی سے امریکہ آئے تھے اور اپنی مرضی سے ہی واپس اپنے وطن جاسکتے ہیں۔ اُن پر کوئی پابندی نہیں اور وہ فیصلہ خود کر سکتے ہیں۔ دریں اثناء اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ایک ترجمان ’فلپ کرولی‘ نے واشنگٹن حکام کے شاہرام امیری کے ساتھ رابطے کی تصدیق کی ہے۔ اُن کے بقول ’ امیری کچھ عرصے سے یہاں تھے، میں یہ نہیں بتاؤں گا کہ وہ کب سے امریکہ میں تھے، تاہم انہوں نے واپس اپنے ملک جانے کا فیصلہ کر لیا ہے‘۔ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ترجمان نے اس بارے میں کسی قسم کی تفصیلات بتانے سے انکار کر دیا کہ ’ آیا ایرانی جوہری سائنسدان نے امریکہ کو کوئی خفیہ معلومات فراہم کی ہیں‘۔
2009 ء میں سعودی عرب سے لاپتہ ہونے والے ایرانی جوہری سائنسدان تہران کی ’ملک اشتر یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی‘ کے ساتھ منسلک تھے۔ اس ادارے کو ایران کے ’ایلیٹ ریوولوشنری گارڈ‘ پاسداران انقلاب سے قریب تصورکیا جاتا ہے، جس کے متعدد کمانڈرز اور کمپنیاں اقوام متحدہ کی پابندیوں کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔
شاہرام امیری نے منگل کو ایرانی ٹیلی وژن چینل کو واشنگٹن میں ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا ’ میرے اغوا کی کہانی طویل ہے اس کی تفصیلات میں اُس وقت منظر عام پر لاؤں گا جب میں با امید خدا اپنے ملک پہنچ جاؤں گا‘۔ ایرانی چینل کی انگریزی ویب سائٹ پر امیری کے بیانات شائع ہوئے ہیں، جس میں امیری نے کہا’ میں وطن پہنچنے پر اپنے میڈیا اور ہم وطنوں کو اطمینان اور سکون سے گزشتہ 14مہینوں کے پراسرار واقعات کی تفصیلات سے آگاہ کروں گا۔ میں ایران میں اُن تمام الزامات کی وضاحت پبش کروں گا، جو غیر ملکی میڈیا اور امریکی حکومت نے مجھ پر عائد کئے ہیں۔ یہ سب مجھے بدنام کرنے کے لئے کیا گیا‘۔
شاہرام امیری کی وطن واپسی کے پیچھے کار فرما عوامل کے بارے میں مختلف خبریں سامنے آ رہی ہیں۔ چند خبر رساں اداروں کے مطابق امریکہ نے حال ہی میں عراق سے ملحقہ ایران کے سرحدی علاقے سے گرفتار کئے جانے والے تین امریکی سیاحوں کی رہائی کے سلسلے میں تہران کے ساتھ مذاکرات کئے۔ ان امریکی باشندوں کو ایران کی سرحد میں در اندازی کے الزام میں ایرانی حکام نے گرفتار کیا تھا۔ ذرائع کے مطابق ایرانی جوہری سائسدان شاہرام امیری کی وطن واپسی ایران میں گرفتار ہونے والے تین امریکی سیاہوں کے بدلے میں ممکن ہوئی۔ تاہم اس کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔
رپورٹ: کشور مصطفیٰ
ادرات: عدنان اسحاق