ایرانی پارلیمان نے میزائل پروگرام کا بجٹ بڑھا دیا
13 اگست 2017خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے ایرانی حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ ملکی پارلیمان نے تیرہ اگست بروز اتوار اپنے میزائل پروگرام اور ایلیٹ ریوولوشنری گارڈ ملیشیا کے بجٹ میں اضافے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ مقامی میڈیا کے مطابق اس مجوزہ قانون کی پارلیمان سے منظوری دراصل حالیہ امریکی پابندیوں کا جواب ہے۔ امریکی حکومت نے ابھی حال ہی میں ایران کے میزائل پروگرام کی وجہ سے اس پر تازہ پابندیاں عائد کی تھیں۔
ایران امریکا کشیدگی: تہران اپنے میزائل تجربات جاری رکھے گا
امریکا کی طرف سے تہران کے خلاف نئی پابندیاں
امریکی پابندیوں کے ایک دن بعد ایرانی فوجی مشقیں، میزائل ٹیسٹ
میڈیا رپورٹوں کے مطابق اس مجوزہ قانون کے تحت میزائل پروگرام کے بجٹ میں کتنا اضافہ کیا گیا ہے، یہ ابھی تک معلوم نہیں ہو سکا ہے۔ ایران میں محافظین انقلاب فورس کے بجٹ کو عمومی طور پر خفیہ ہی رکھا جاتا ہے۔ اگرچہ عالمی طاقتوں کو تہران حکومت کے میزائل پروگرام پر تحفظات ہیں تاہم ایران کا کہنا ہے کہ اس کا یہ پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے۔
ایرانی حکام کے مطابق عالمی طاقتوں کے ساتھ جوہری معاہدے کے بعد تازہ امریکی پابندیاں ناجائز ہیں۔ سن دو ہزار پندرہ میں ایران اور عالمی طاقتوں نے ویانا مذاکرات کے بعد ایک ڈیل کی تھی، جس کے تحت ایران نے اپنی جوہری سرگرمیوں کو محدود بنانے پر رضا مندی ظاہر کی تھی۔ اس ڈیل کے تحت اقوام متحدہ کے آزاد معائنہ کار ایرانی جوہری تنصیبات کا معائنہ بھی کرتے ہیں تاکہ علم رہے کہ اس کا جوہری پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہی ہے۔
تہران حکومت کا کہنا ہے کہ اس جوہری ڈیل میں ایرانی کے میزائل پروگرام کا کوئی تذکرہ نہیں تھا اور اب اس تناظر میں تہران حکومت پر پابندیاں عائد کرنا ویانا ڈیل کی خلاف ورزی ہے۔ ایران کا مؤقف ہے کہ اس کا جوہری پروگرام صرف دفاعی مقاصد کے لیے ہے۔
مقامی میڈیا نے ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف کے حوالے سے بتایا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایران کے میزائل پروگرام کو ایک بہانہ بنا کر جوہری ڈیل کی ناکامی کی ذمہ داری ایران پر ڈالنے کی کوشش میں ہیں۔
ظریف کے مطابق ایران جوہری ڈیل پر عمل پیرا رہے گا۔ تاہم انہوں نے خبردار کیا کہ اگر عالمی طاقتیں اس ڈیل پر مؤثر طریقے سے عملدرآمد کرانے کی خاطر اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کرتیں تو ایران بھی اس مناسبت سے اپنا ردعمل ظاہر کرے گا۔ یہ امر اہم ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اقتدار سنبھالنے کے بعد بھی کئی مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ اس ڈیل کے تحت ایران کو کافی زیادہ چھوٹ دی گئی ہے۔