1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایران اور امریکہ بہتر تعلقات کی جانب

10 فروری 2009

ایران اورامریکہ ایک دوسرے کے قریب آنے میں کس حد تک سنجیدہ ہیں ؟ اس بارے میں Peter Philipp کا تبصرہ

https://p.dw.com/p/Gr7N
ایرانی صدر محمود احمدی نژادتصویر: AP

ہزاروں ایرانی باشندوں نے گزشتہ روزایران میں اسلامی انقلاب کی تیسویں سالگرہ منائی۔ اس موقع پرایرانی صدر محمود احمدی نژاد نے کہا کہ تہران حکومت امریکہ کے ساتھ مکالمت کے لئے بنیادی طورپرتیار ہے۔ اس سے قبل رواں ہفتے کے اوائل میں امریکی صدر باراک اوباما نے کہا تھا کہ ایران کے ساتھ اگلے مہینوں کے دوران مذاکرات شروع کئے جا سکتے ۔

جب بھی کوئی قوم اپنا اہم دن مناتی ہے، تو وہ ماضی کی غلطیوں پر نظرڈالتے ہوئے انکی تصیح کی کوشش کرتی ہے۔ ایسا ہی کچھ ایران میں اسلامی انقلاب کی تیسویں سالگرہ کے موقع پردیکھا گیا۔ صدر محمود احمدی نژاد نے تہران کے آزادی چوک پراپنے خطاب میں کہا کہ وہ امریکی صدر باراک اوباما کی ایران کے ساتھ براہ راست مذاکرات کی پیشکش کوسراہتے ہیں۔ ایرانی صدرکے اس بیان سے چند گھنٹے قبل ہی اوباما نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ ایران کے ساتھ مذاکرات اگلے یعنی مارچ کے مہینے میں بھی شروع ہو سکتے ہیں۔

ان خوبصورت بیانات سے بہت سی امیدیں وابستہ نہیں کرلینی چاہیں کیونکہ دونوں جانب سے کئے جانے والے قربت کے وعدوں کی فریقین کو کوئی نہ کوئی قیمت ضرور ادا کرنی پڑے گی۔ احمدی نژاد پہلے ہی یہ مطالبہ کر چکے ہیں کہ طویل عرصے سے ایرانی معاملات میں جاری مداخلت پر امریکہ کومعافی مانگا ہوگی۔ اپنے تازہ ترین مطالبے میں انہوں نے کہا کہ یہ مذاکرات دو طرفہ احترام کی بنیاد پر ہونے چاہیئں۔ جبکہ اوباما کا کہنا ہے کہ مکالمت برابری کی سطح پر ہونی چاہیے۔ یہاں تک تو صحیح ہے لیکن کئی ایسے مطالبے ہیں جو واشنگٹن پہلے سے کرتا آرہا ہے۔ جن میں ایران کے متنازعہ جوہری پروگرام کو بند کرنے اور اسرائیل کی جانب مصالحت آمیز رویہ اختیار کرنے جیسے مطالبات شامل ہے۔

ایران کے رویے میں یہ تبدیلی واقعی حیرت کی بات ہے۔ لیکن شاید ایران اور امریکہ کو ایک دوسرے کے قریب آنے کے لئے پہلے ان چیزوں پر زیادہ توجہ دینی چاہیے جن میں دونوں کی دلچسپی ہے اور ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر عراق اور افغانستان کا معاملہ شامل ہے۔

پہلے دوطرفہ اعتماد قائم ہونا چاہیے۔ جب یہ ہو گا تو براہ راست مذاکرات بھی ثمربار ثابت ہونگے۔ تب ہی ان ذہنی تحفظات کو بھی ختم کیا جاسکے گا جو اطراف کے مابین ابھی بھی پائے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر یہ ذہنی رویہ کہ دشمن کو دکھانے کے لئے انقلاب کی سالگرہ کے دن شہریوں کو بہت بڑی تعداد میں عوامی اجتماعات میں شرکت کی ترغیب دی جائے۔ معمول کی بات تو یہ ہو گی کہ ایرانی عوام قومی یادگار کے دنوں کو اپنی مرضی اور خوشی سے منا سکیں۔ اس لئے بھی کہ گزشتہ تین عشروں میں ایرانی سیاست میں موجود نقائص کے باوجود بہت سے ایسے مواقع آئے جن میں ایرانی عوام آزادانہ طور پر اپنی مرضی سے یادگار دن منا سکتی تھی۔