ایران اور حزب اللہ کی جانب سے مدینے میں حملے کی مذمت
5 جولائی 2016ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے اپنے ایک ٹوئیٹ پیغام میں سعودی عرب ميں بم دھماکوں کی شدید مذمت کی ہے۔ ان کا کہنا تھا، ’’دہشت گردوں کو اب مزید کسی لکیر کو عبور کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ سنی اور شیعہ مسلمان دونوں ہی اس وقت تک ظلم کا شکار رہیں گے جب تک کہ وہ یک جا نہیں ہو جاتے۔‘‘
ایران اور سعودی عرب کے تعلقات عرصہ دراز سے کشیدگی کا شکار رہے ہیں۔ دونوں اسلامی ممالک کے تعلقات مزید اس وقت خراب ہو گئے جب ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں نے سعودی حمایت یافتہ یمنی حکومت کا تختہ الٹ کر ملک بھر میں بغاوت کر دی۔ سعودی عرب کی سربراہی میں ایک عرب ممالک کا فوجی اتحاد حوثیوں کو کچلنے کے لیے فضائی اور زمینی کارروائی کر رہا ہے۔
دوسری جانب شام کا تنازعہ بھی دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کا سبب بن رہا ہے۔ ایران شامی صدر بشار الاسد کی حمایت کر رہا ہے جب کہ سعودی عرب اسد حکومت کے خلاف ہے۔ شامی خانہ جنگی میں علاقائی حریف مختلف متحارب گروہوں کی حمایت کر رہے ہیں۔
تاہم مسجد نبوی، جو کہ مسلمانوں کی دوسری مقدس ترین جگہ ہے، کے قریب خود کش حملے نے فی الوقت تنازعات کو پس پشت ڈال دیا ہے۔
ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ارنا نے وزارت خارجہ کے ترجمان بہرام قاسمی کا ایک بیان نشر کیا ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ ’’دہشت گردی کی نہ کوئی سرحد ہے اور نہ کوئی قومیت۔ دہشت گردوں کے خلاف ایک علاقائی اور بین الاقوامی اتحاد بنا کر اس کا مقابلہ کرنے کے سوا مسئلے کا کوئی حل نہیں ہے۔‘‘
دوسری جانب قاہرہ کی مشہور جامعۃ الاظہر نے بھی مدینے میں حملے کی مذمت کی ہے اور اس کو ’’اللہ کے مقامات کی حرمت، بالخصوص پیغمبر اسلام کی مسجد کی تقدیس‘‘ کے خلاف کارروائی قرار دیا ہے۔
پاکستان کا بھی کہنا ہے کہ وہ حملہ کرنے والوں کے خلاف سعودی حکم رانوں کے شانہ بہ شانہ کھڑا ہے۔ پاکستان کے فوجی سربراہ راحیل شریف نے حملے کے بعد سعودی حکومت کے نمائندوں سے فون پر رابطہ بھی کیا۔
لبنان کی شیعہ تنظیم حزب اللہ کی جانب سے بھی مسجد نبوی کے قریب حملے کے خلاف مذمتی بیان سامنے آیا ہے۔ حزب اللہ کا کہنا ہے کہ رمضان کے آخری روزوں کے دوران حملے اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ دہشت گرد ان سب چیزوں کے خلاف ہیں جن کی مسلمان عزت کرتے ہیں۔
مغربی ممالک کی جانب سے بھی سعودی عرب میں پیر کے روز ہونے والے متعدد بم دھماکوں کی مذمت کی گئی ہے۔