ایران جوہری پروگرام سے متعلق ’ڈیل‘ کے بہت قریب
6 فروری 2010ایرانی وزیرخارجہ منوچہر متقی نے کہا کہ ایران کم افزودہ یورینیم کی مزید افزودگی کے لئے اسے برآمد کرنے کے حوالے سے کسی ’ڈیل‘ کے انتہائی قریب ہے تاہم متقی نے یہ بھی کہا کہ بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کو ایران کے جوہری پروگرام کے سلسلے میں اپنے مجوزہ معاہدے میں کچھ تبدیلیوں کی بھی ضرورت ہے۔
جنوبی جرمن شہر میونخ میں جاری تین روزہ سلامتی کانفرنس کے پہلے روز ایران اور چین کے وزرائے خارجہ اپنے اپنے ممالک کے نقطہ نظر کی وضاحت میں مصروف دکھائی دئے۔ تائیوان کے لئے امریکی اسلحے کی فروخت پر چین کی ناراضگی اور ایران کے جوہری پروگرام کے حوالے سے کوئی ممکنہ پیش رفت کانفرنس میں مرکزی موضوعات رہے۔
ایرانی وزیرخارجہ منوچہر متقی نے کانفرنس میں کہا کہ کم افزودہ یورنیم کی مزید افزودگی کے لئے کسی عالمی طاقت کو برآمد کرنے کے عالمی منصوبے میں کچھ تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ تاہم جرمن اخبار زوڈ ڈوئچے سائٹنگ کو دئے گئے ایک انٹرویو میں متقی نے یہ عندیہ بھی دیا کہ ایرانی صدر احمدی نژاد جوہری پروگرام کے حوالے سےکسی معاہدے کے لئے تیار ہیں۔ ایرانی وزیر خارجہ کا یہ انٹرویو زوڈ ڈوئچے سائٹنگ کے آج کے شمارے میں شائع ہوگا۔ اس سے قبل مینوخ کانفرنس کے افتتاح کے موقع پر جرمن وزیردفاع کال تھیوڈور سوگوٹن برگ نے اس امید کا اظہار کیا تھا کہ ایران کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے مثبت پیش رفت جلد ہی سامنے آئے گی۔
’’امید ہے کہ ہفتے کے اختتام پر اس حوالے سے خواہشات کے مطابق ایک واضح اور متفقہ اور غیر مبہم اشارہ سامنے آئے گا۔‘‘
ایرانی وزیرخارجہ متقی نے جرمن اخبار کو دئے گئے اپنے انٹرویو میں مزید کہا : ’’ہمارے خیال میں یہ عمل ہمیں اعتماد سازی کے ایک نئے دور میں داخل کرے گا۔ ہم نے اشارہ دیا ہے کہ ہم ایک بڑے معاہدے پر پہنچ سکتے ہیں اور یہ ایک اہم نکتہ ہے۔‘‘
ایران کے لئے تجویز کردہ عالمی معاہدے کے مطابق ایران اپنے ہاں یورینیم کو ایک حد تک افزودہ کرنے کے بعد اسے برآمد کرے اور اسے طبی شعبے میں قابل استعمال حد تک افزودہ یورینیم واپس کی جائے۔
تاہم انہوں نے خبردار بھی کیا کہ ایران بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کی جانب سے دی گئی ٹائم لائن کو تسلیم نہیں کرے گا۔ اس ٹائم لائن کے مطابق ایران یورینیم کو بیرون ملک برآمد کرنے کے بعد افزودہ یورینیم کے حصول کے لئے ایک برس انتظار کرے۔
دوسری جانب کانفرنس کے پہلے روز چین نے تائیوان کے لئے امریکی دفاعی سازوسامان کی فروخت کی واضح الفاظ میں مخالفت کرتے ہوئے اپنے تحفظات ظاہر کئے۔ چینی وزیر خارجہ نے ایران کے جوہری پروگرام کے حوالے سے چینی موقف میں نرمی لاتے ہوئے کہا کہ تائیوان کو امریکی اسلحے کی فراہمی بین الاقوامی قواعد کی خلاف ورزی ہے اور اس سے دونوں ملکوں کے درمیان نہ صرف تعلقات خراب ہوں گے بلکہ ساتھ ہی ساتھ اعتماد سازی کے عمل کو بھی دھچکا پہنچے گا۔
’’مجھے امید ہے کہ امریکہ اپنے رویے کو تبدیل کرتے ہوئے تائیوان کو اسلحہ فروخت نہیں کرے گا۔‘‘
انہوں نے کہا کہ ظاہر ہے چینی حکومت اور عوام اس اقدام پر اپنی آزادی کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ہر ممکن طور پر اپنا ردعمل ظاہر کریں گے۔
چند روز قبل امریکی محکمہ دفاع پینٹا گون نے کانگریس میں ایک تجویز پیش کی تھی، جس کے تحت تائیوان کو چھ اعشاریہ چار بلین ڈالرز کا دفاعی ساز و سامان بیچا جانا ہے۔ کانگریس کی منظوری کے بعد ہی اس منصوبے پر عمل درآمد ہو پائے گا۔
رپورٹ : عاطف توقیر
ادارت : عدنان اسحاق