1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایران نے اقوام متحدہ کو ’مشتبہ جوہری تنصیبات‘ تک رسائی دے دی

27 اگست 2020

ایران نے کہا ہے کہ وہ جوہری سرگرمیوں پر نگاہ رکھنے والے اقو ام متحدہ کے ادارے، آئی اے ای اے، کے ساتھ ایک ماہ سے جاری تعطل کو ختم کرتے ہوئے اسے اپنے دو مشتبہ جوہری تنصیبات تک رسائی دے رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/3hYxS
Iran Isfahan Kernkraftwerk
تصویر: Getty Images/AFP/H. Fahimi

بدھ کے روز ہونے والی اس اہم پیش رفت کے نتیجے میں تہران پر پڑنے والا سفارتی دباو کم ہوجائے گا کیوں کہ امریکا اس کے خلاف دوبارہ پابندیاں عائد کرانے کی کوشش کررہا ہے۔

دو جوہری تنصیبات تک رسائی دینے کے حوالے سے اتفاق رائے کا اعلان بدھ کر روز تہران اور اقوام متحدہ کے ادارے انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (آئی اے ای اے) کی طرف سے جاری ایک مشترکہ بیان میں کیا گیا ہے۔  اس سے قبل آئی اے ای اے کے ڈائریکٹر جنرل رافیل گروسی اور ایرانی جوہری ایجنسی کے سربراہ علی اکبر صالحی کے درمیان اعلی سطحی بات چیت ہوئی۔

مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ”ایران رضاکارانہ طور پرآئی اے ای اے کے معائنہ کاروں کو ان کی جانب سے بتائے گئے دو مقامات تک رسائی دے گا۔"  بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ”آئی اے ای اے کے معائنہ کاروں کو دو مقامات، جن میں سے ایک تہران کے مغرب میں کراج کے نزدیک اور دوسرا وسطی ایران میں اصفہان کے نزدیک ہے، تک رسائی دینے کے لیے تاریخوں اور مصدقہ سرگرمیوں پر اتفاق کرلیا گیا ہے۔“

جب گروسی سے ان تاریخوں کے بارے میں دریافت کیا گیا تو انہوں نے رازداری کا حوالہ دیتے ہوئے تفصیلات بتانے سے انکار کردیا تاہم کہا کہ ”یہ قریب، بہت قریب ہے۔"

آئی اے ای اے کا کہنا ہے کہ ایران کی طرف سے جوہری تنصیبات کا معائنہ کرنے کی اجازت دینے کے بدلے میں نہ تو اس سے کوئی سوال  پوچھا جائے گا اور نہ ہی ان دونوں تنصیبات کے علاوہ کسی دیگر تنصیبات تک رسائی حاصل کرنے کی درخواست کی جائے گی۔

Iran Atomenergie | Verhandlungen IAEA | Ali-Akbar Salehi & Rafael Grossi
آئی اے ای اے کے ڈائریکٹر جنرل رافیل گروسی اور ایرانی جوہری ایجنسی کے سربراہ علی اکبر صالحی (فائل فوٹو)تصویر: Reuters/Wana

مارچ میں گروسی نے اقوام متحدہ کو بتایا تھا کہ ایران نے آئی اے ای اے کے معائنہ کاروں کو ان دو مقامات تک رسائی دینے سے انکار کردیا ہے جس کے بارے میں شبہ کیا جاتا ہے کہ وہاں سن 2000 کی دہائی کے اوائل میں یورینیم کومقوی بنایا اور دھماکوں کا تجربہ کیا جاتا تھا۔

آئی اے ا ی اے گزشتہ جنوری سے ہی ان تنصیبات تک رسائی کا مطالبہ کررہی تھی۔ اس نے شبہ ظاہر کیا تھا کہ وہاں غیر اعلانیہ جوہری مواد رکھا ہوا ہے اور ایجنسی تہران کے اس دعوے کی تصدیق کرنا چاہتی ہے کہ ایران کی جوہری سرگرمیاں پوری طرح پرامن مقاصد کے لیے ہیں۔

رواں برس جون میں آئی اے ای اے نے بورڈ آف گورنرز کی جانب سے قرارداد منظور کیے جانے کے بعد ایران پر دباؤ میں اضافہ کردیا تھا کہ معائنہ کاروں کو ان مقامات تک رسائی کا موقع فراہم کیا جائے۔ ایران سے کہا گیا تھا کہ وہ معاہدوں پر عمل درآمد کے سلسلے میں آئی اے ای اے سے مکمل تعاون کرے۔

ایران ان مطالبات کو مسلسل مسترد کرتا رہا تاہم اب فریقین کے درمیان باقاعدہ معاہدہ ہوچکا ہے۔ ایرانی سرکاری میڈیا کے مطابق تہران حکومت نے کہا ہے کہ 'ایران پہلے کی طرح آئی اے ای اے کے ساتھ تعاون کے لیے تیار ہے۔‘

USA Iran Spannungen Symbolbild Rohani im Atomkraftwerk in Bushehr
ایرانی صدر حسن روحانی بوشہر نیوکلیائی پلانٹ میںتصویر: picture-alliance/AP Photo/Iranian Presidency Office/M. Berno

خیال رہے کہ ایران اور بڑی عالمی طاقتوں کے درمیان 2015 میں ایک جوہری معاہدے پر دستخط ہوئے تھے، جس کے تحت ایران کے جوہری پروگرام کو محدود کرنے پر اتفاق کیا گیا تھا۔ ایران نے وعدہ کیا تھا کہ وہ جوہری ہتھیار نہیں بنائے گا اور اس کے بدلے میں اس پر عائد بین الاقوامی پابندیاں اٹھالی گئی تھیں۔ اس کے ساتھ ہی ایران کو اپنا تیل اور گیس دنیا بھر میں کسی بھی ملک کو برآمد کرنے کی اجازت دے دی گئی تھی۔

لیکن امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018 میں ایران کے ساتھ ہوئے اس معاہدے کو ختم کرنے کا یک طرفہ اعلا ن کردیا اور ایران پر دوبارہ معاشی پابندیاں عائد کردیں۔ ایران نے امریکا کے اس فیصلے کے بعد جوابی اقدام کے طورپر اپنی جوہری سرگرمیاں بحال کرنے کا اعلا ن کردیا۔

امریکا نے گزشتہ ہفتے ایران پر معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام عائد کرتے ہوئے اقو ام متحدہ کی سلامتی کونسل سے اس کے خلاف پابندیاں عائد کرانے کی کوشش کی تھی لیکن معاہدے میں شامل یورپی ممالک فرانس، جرمنی اور برطانیہ نے امریکا کی تجویز مسترد کردی تھی۔ ان ملکوں کا کہنا تھا کہ امریکا چونکہ اس معاہدے کا فریق نہیں رہا ہے اس لیے اسے اس طرح کے اقدامات کا کوئی اختیار نہیں ہے۔

ج ا /  ص ز (ایجنسیاں)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں