1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایران نے اپنا سب سے وزنی پے لوڈ خلاء میں پہنچا دیا

6 دسمبر 2024

ایران نے ایک گھریلو ساختہ سیٹلائیٹ کیرئیر کی مدد سے اپنا وزنی ترین پے لوڈ لانچ کر دیا۔ ایک ٹیلی کمیونیکیشن سیٹلائیٹ اور ایک خلائی ٹگ پر مشتمل یہ پے لوڈ جمعے کو کامیابی کے ساتھ خلاء میں پہنچا۔

https://p.dw.com/p/4nqF9
مغربی حکومتوں، بشمول امریکہ، نے بارہا ایران کو ایسے لانچز سے باز رہنے کی تنبیہ کی ہے
مغربی حکومتوں، بشمول امریکہ، نے بارہا ایران کو ایسے لانچز سے باز رہنے کی تنبیہ کی ہےتصویر: IRANIAN DEFENCE MINISTRY/AFP

ایران کے سرکاری ٹیلی ویژن کے مطابق، 300 کلوگرام (660 پاؤنڈ) وزن کا یہ پے لوڈ "فخر-1" ٹیلی کمیونیکیشن سیٹلائٹ اور "ثمن-1" اسپیس ٹگ پر مشتمل ہے۔ اسپیس ٹگ اس خلائی جہاز کو کہتے ہیں جو مختلف توانائی کی سطحوں کے ساتھ مداروں کے درمیان کارگو یا مصنوعی سیاروں کو منتقل کرتا ہے۔

رپوٹ میں مزید کہا گیا کہ یہ لانچ سیٹلائٹس کو بلند مداروں میں منتقل کرنے کی جانب ایک عملی قدم کی حیثیت رکھتا ہے۔

کئی ناکامیوں کے بعد ایران کا سیٹلائٹ روانہ کرنے کا نیا منصوبہ

اس نظام کو پہلی بار فروری 2017 میں متعارف کروایا گیا تھا، جس کی افتتاحی تقریب میں اس وقت کے ایرانی صدر حسن روحانی نے بھی شرکت کی تھی۔ اس نظام کا آزمائشی لانچ 2022 میں کیا گیا۔

ایک افسانوی ایرانی پرندے کے نام سے موسوم سیمرغ سیٹلائٹ کیریئر مائع ایندھن سے چلنے والا سیٹلائٹ بردار راکٹ  ہے جسے وزارت دفاع اور مسلح افواج کے تعاون  سے بنایا گیا ہے۔

سیمرغ سیٹلائٹ
سیمرغ سیٹلائٹ تصویر: IRANIAN DEFENCE MINISTRY/AFP

مغربی حکومتوں، بشمول امریکہ، نے بارہا ایران کو ایسے لانچز سے باز رہنے کی تنبیہ کی ہے۔ ان حکومتوں کا کہنا ہے کہ سیٹلائٹ کے لیے استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی ممکنہ طور پر بیلسٹک میزائلوں کے لیے بھی استعمال کی جا سکتی ہے، جو جوہری ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

ایران نے اپنا دوسرا فوجی سیٹلائٹ بھی خلا میں بھیج دیا

ایران جوہری ہتھیاروں کے حصول کے ارادے کی تردید کرتا ہے۔ اس کا مستقل مؤقف ہے کہ اس کے سیٹلائٹ اور راکٹ لانچز کا مقصد صرف شہری اور دفاعی ہے۔

گزشتہ ماہ روس نے 55 سیٹلائٹس لانچ کیے، جن میں ایران کے تیار کردہ دو سیٹلائٹس – "کوثر" اور "ہدہد" – بھی شامل تھے۔ یہ لانچ دونوں ممالک کے درمیان بڑھتے ہوئے سیاسی، اقتصادی اور عسکری تعلقات کی عکاسی کرتا ہے۔

ش خ ⁄  ج ا ( اے ایف پی)