ایران نے بھارت کو چابہار پروجیکٹ سے نکال دیا
14 جولائی 2020ایران نے یہ غیر معمولی قدم ایسے وقت اٹھایا ہے جب اس نے چین کے ساتھ 400 ارب ڈالر کے 25 سالہ اقتصادی اور سیکورٹی معاہدے کو حتمی شکل دے دی ہے۔ اس کے نتیجے میں ایران میں بینکنگ، ٹیلی کمیونیکیشن، بندرگاہوں، ریلوے اور درجنوں دیگر ترقیاتی پروگراموں میں چین کی موجودگی نمایاں طور پردکھائی دے گی۔ بھارت نے اس پیش رفت پر فی الحال کسی ردعمل کا اظہارنہیں کیا ہے۔
چار برس قبل مئی 2016 میں بڑے دھوم دھام کے ساتھ ایران کے چابہار بندرگاہ سے زاہدان تک ریلوے لائن کی تعمیر کے لیے ایران، بھارت اور افغانستان کے درمیان ایک سہ فریقی معاہدے پردستخط ہوئے تھے۔ اس کا مقصد پاکستان کو درکنار کرتے ہوئے افغانستان اور وسطی ایشیا کے لیے ایک متبادل تجارتی راستہ تعمیر کرنا تھا۔ یہ تجارتی راستہ بھارت کی مغربی ریاست گجرات میں کاندھلہ بندرگاہ کو ایران کے چابہار بندرگاہ سے جوڑتا۔
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی، ایرانی صدر حسن روحانی اور افغانستان کے صدر اشرف غنی کی موجودگی میں اس معاہدے پربھارت کے حکومتی ادارے ارکون(IRCON) (انڈین ریلوے کنسٹرکشن لمیٹیڈ) اور ایرانی وزارت ریلوے کے درمیان مئی 2016 میں دستخط ہوئے تھے۔
بھارتی میڈیا میں شائع ہونے والی رپورٹوں کے مطابق ارکون کے انجینئروں کے معتدد سائٹ وزٹ کے باوجود بھارت نے اب تک پروجیکٹ پر کام شروع نہیں کیا ہے۔ اس کی ایک وجہ امریکا کی طرف سے پابندیاں عائد کرنے کا خدشہ بتایا جاتا ہے۔ حالانکہ امریکا نے چابہار بندرگاہ سے زاہدان تک ریلوے لائن بچھانے کے پروجیکٹ کو پابندیوں سے چھوٹ دے رکھی ہے لیکن امریکا کی ناراضگی کے خوف سے کوئی بھی کمپنی ساز و سامان سپلائی کرنے سے گھبرا رہی ہے۔ بھارت امریکی پابندیوں کی وجہ سے پہلے سے ہی ایران سے تیل کی درآمدات بند کرچکا ہے۔
اس سال مارچ میں جب بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے تہران کا دورہ کیا تھا تو ایرانی صدر حسن روحانی نے ملاقات کے دوران ان سے کہا تھا کہ بھارت چابہار پروجیکٹ کا کام شروع کرے کیوں کہ یہ علاقائی تجارتی تعلقات کے لیے کافی سود مند ہے۔ اس ملاقات کے دوران دونوں ممالک چابہار بندرگاہ کو اقتصادی لحاظ سے سود مند بنانے کے لیے مختلف اقدامات پر رضامند بھی ہوگئے تھے۔
اطلاعات کے مطابق تہران نے بھارت سے مالی امداد کے بغیر اب خود ہی چابہار۔ زاہدان ریلوے پروجیکٹ پر کام شروع کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ ایرانی وزیر ٹرانسپورٹ محمد اسلامی نے گزشتہ ہفتے اس پروجیکٹ کا باضابطہ افتتاح کیا۔ ایرانی افسران کے مطابق 628 کلومیٹر طویل یہ ریلوے لائن چابہار بندرگاہ سے ایران کے زاہدان تک اور وہاں سے افغانستان کے زارنج تک جائے گی۔ اس پروجیکٹ کو مارچ 2022 تک مکمل کرلیا جائے گا۔ اس کے لیے ایران کے نیشنل ڈیویلپمنٹ فنڈ سے 400 ملین ڈالر کی رقم مختص کی گئی ہے۔
ایران نے یہ قدم ایسے وقت اٹھایا ہے جب بھارت اور چین کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے دوسری طرف حال ہی میں چین اور ایران کے درمیان 400 ارب ڈالر کے اسٹریٹیجک انوسٹمنٹ کا ایک 25 سالہ معاہدہ ہوا ہے۔ ایران اور چین کے درمیان اس معاہدے کے مطابق چین ایران میں بینکنگ سے لے کر ٹیلی کمیونیکیشن اور بندرگاہوں سے لے کر ریلویز تک مختلف ترقیاتی پروجیکٹوں میں سرمایہ کاری کرے گا۔ امید ہے کہ ایک درجن سے زائد ایرانی پروجیکٹ چین کے پاس چلے جائیں گے۔ اس کے بدلے میں ایران، چین کو اگلے 25 برسوں تک رعایتی شرح پر تیل فراہم کرے گا۔
اسٹریٹیجک امور کے ماہر بریگیڈیر(ریٹائرڈ) این کے بھاٹیا کا کہنا ہے کہ ایران اور چین کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات بھارت کے لیے یقیناً تشویش کا موجب ہیں۔ بالخصوص اس حالت میں جبکہ چین اور پاکستان کے درمیان انتہائی قریبی تعلقات ہیں اور افغانستان اور بھارت کے تعلقات کے حوالے سے پاکستان کے رویے کا سب کو علم ہے۔
بریگیڈیر بھاٹیا کے مطابق ایران میں چین کے بڑھتے ہوئے قدم سے نہ صرف بھارت اور چین کے تعلقات پر بلکہ افغانستان اور وسطی ایشیائی ملکوں میں بھی اس کے دیر پا اثرات مرتب ہوں گے۔