ایردوآن یونان میں: تعلقات کا ’نیا باب‘
14 مئی 2010یونان کے قرضوں کا بحران ایتھنز اور انقرہ کے ایک دوسرے کے قریب آنے کا ایک تاریخی موقع فراہم کر رہا ہے۔ رجب طیب ایردوآن گزشتہ چھ برسوں میں اپنے پہلےدَورہء یونان پر جمہ، چودہ مئی کو دارالحکومت ایتھنز پہنچے اور کہا، وہ اِس بات پر آمادہ ہیں کہ نیٹو کے رکن یہ دونوں ممالک اپنے اپنے بھاری دفاعی اخراجات میں کمی کریں۔ دونوں حکومتوں کا ایک مشترکہ کابینہ اجلاس بھی پروگرام میں شامل ہے۔ مجوزہ اکیس سمجھوتوں کا تعلق سیاحت، تجارت، تحفظ ماحول اور صنعتی شعبوں سے ہے۔
یونان اور ترکی کے بھاری دفاعی اخراجات کی وجہ مغربی دفاعی اتحاد میں اُن کی رکنیت سے پیدا شُدہ ذمہ داریاں نہیں بلکہ وہ پرانی دشمنی ہے، جو 1974ء اور 1996ء کے درمیان تین مرتبہ اِن دونوں ملکوں کو جنگ کے دہانے پر لے آئی تھی۔ اِن دونوں ملکوں کے درمیان نہ صرف منقسم قبرص وجہِ نزاع رہا ہے بلکہ دونوں ’ایجین سی‘ میں بھی ایک دوسرے کے زیرِ قبضہ علاقے پر اپنی ملکیت کے دعویٰ کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایتھنز حکومت قرضوں کے بحران کے نقطہء عروج کو پہنچنے تک یورپی یونین میں ترکی کی شمولیت کا راستہ روکتی رہی ہے اور یہ موقف اختیار کرتی رہی ہے کہ پہلےیہ اختلافات دور ہونے چاہییں۔
اب یونان اپنے بجٹ کے ہوش رُبا خسارے کی وجہ سے اپنے دفاعی اخراجات میں اب تک کے پروگرام کے مطابق 12.6فیصد نہیں بلکہ 25 فیصد کی کمی کرنا چاہتا ہے اور اِس بات کا اعلان یونانی وزیر دفاع ایوانگے لوس وینیزے لوس گزشتہ مہینے ہی کر چکے ہیں۔
جمعرات کی شب ہی یونانی ٹیلی وژن میں اپنے ایک انٹرویو میں ترک وزیر اعظم رجب طیب ایردوآن نے کہا کہ وہ یونانی حکومت کی اپنے مالی معاملات کو درست کرنے کی کوششوں کی حمایت کرتے ہیں۔ ایردوآن نے تسلیم کیا کہ یونان ہی کی طرح ترکی کا بھی دفاعی بجٹ بہت زیادہ ہے اور کوشش یہ ہونی چاہیئے کہ ’اِن اخراجات کو کم کرتے ہوئے یہ رقوم دیگر مقاصد کے لئے استعمال کی جائیں۔‘ ایردوآن کے مطابق عزم پختہ ہو تو نتائج بھی مثبت برآمد ہوں گے۔ جمعے کو ایتھنز کے لئے روانگی سے پہلے ایردوآن نے کہا کہ اِن شعبوں میں ہونے والے سمجھوتے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کے ایک نئے باب کی راہ ہموار کر دیں گے۔
یونان کے دفاعی اخراجات مجموعی قومی پیداوار کے تقریباً 4.8 فیصد کے برابر ہیں اور یورپی یونین کی طرف سے امداد کے تناظر میں ہدفِ تنقید بھی بن رہے ہیں۔
ترک وزیر اعظم اپنے یونانی ہم منصب جارج پاپاندریو کے ساتھ جمعے کی شام ہونے والی ملاقات میں ایسی راہیں تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جن پر چل کر دونوں ملکوں کے عشروں سے چلے آ رہے خراب تعلقات کو پھر سے معمول پر لایا جا سکے اور اُنہیں مزید فروغ دیا جا سکے۔
جمعے کو ترکی اور یونان کے درمیان ایتھنز میں جس پہلے سمجھوتے پر دستخط ہوئے ہیں، اُس میں ترکی سے یونان پہنچنے والے غیر قانونی تارکینِ وطن کو واپس ترکی بھیجے جانے کا ذکر کیا گیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ ترکی سالانہ کم از کم ایک ہزار تارکینِ وطن کو واپس اپنے ہاں قبول کرنے پر راضی ہو گیا ہے۔ اس سلسلے میں تین ماہ کے اندر اندر ایک مرکز ازمیر یا اُس کے قریب کہیں قائم کیا جائے گا۔ پاپاندریو نے جمعرات کو ایک انٹرویو میں ترک اخبار ’زمان‘ کو بتایا تھا:’’ہم اس حقیقت سے صرفِ نظر نہیں کر سکتے کہ ہر سال ہماری سرحدیں عبور کرنے والے ایک لاکھ پچاس ہزار مہاجرین یونان پر بہت زیادہ دباؤ کا باعث بن رہے ہیں۔‘‘ غیر قانرنی تارکینِ وطن کا مسئلہ بھی دونوں ممالک کے درمیان نزاع کا باعث بنتا چلا آ رہا ہے۔
رپورٹ: امجد علی / خبر رساں ادارے
ادارت: مقبول ملک