ایشیا سیکیورٹی سمٹ میں اسرائیل کے فوجی ایکشن پر بات ممکن
6 جون 2010منگل کو ایشیا کے مخلتف ممالک کے سربراہان ترک شہر استنبول میں سلامتی کے موضوع پر ہونے والی سربراہ کانفرنس میں شریک ہو رہے ہیں۔ اس اجلاس میں شرکت کے لئے اسرائیل کو بھی مدعو کیا گیا ہے تاہم ابھی تک اسرائیل کی جانب سے سمٹ میں شریک ہونے یا نہ ہونے کے حوالے سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔
ترکی کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر فرانسیسی خبر رساں ادارے AFP سے بات چیت میں کہا کہ عام حالات میں شاید اس اسرائیلی کارروائی کو اجلاس میں اہم موضوع کی حیثیت حاصل نہ ہوتی، لیکن اس کارروائی کے بعد عالمی سطح پر رائے عامہ میں جس طرح کی تبدیلی دیکھی گئی ہے، وہ اس موضوع پر سوچ بچار کی متقاضی ہے۔
’’منگل کو ہونے والی اس سربراہ کانفرنس کا موضوع سلامتی کے حوالے سے گفت و شنید اور ایشیائی ممالک کے درمیان اعتماد سازی کی کوشش ہے، تاہم موجودہ حالات میں اگر اسرائیلی کارروائی اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے حالات پر گفتگو ہوتی ہے، تو یہ کوئی تعجب خیز بات نہیں ہو گی۔‘‘
مسلم ممالک میں ترکی وہ واحد ملک تھا، جس کے اسرائیل سے دیرینہ تعلقات تھے تاہم غزہ جنگ کے بعد ان تعلقات میں تناؤ اور کشیدگی دیکھی گئی۔گزشتہ ہفتے انسانی حقوق کی ترک تنظیم کے زیرانتظام دُنیا بھر کے انسانی حقوق کے کارکنوں اور چھ جہازوں پر مشتمل ایک بحری قافلہ ناکہ بندی کی پرواہ کئے بغیر غزہ تک امدادی سامان پہنچانے نکلا تھا۔ تاہم گزشتہ پیر کو ایک اسرائیلی کمانڈو ایکشن کے نتیجے میں ان جہازوں اور امدادی کارکنان کو حراست میں لے لیا گیا۔ اس کارروائی میں نو افراد ہلاک ہوئے اور ان سب کا تعلق ترکی سے تھا۔ اس واقعے کے بعد ترکی اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی میں مزید اضافہ ہوگیا۔
ترک وزیراعظم رجب طیب ایردوآن نے اس واقعے پر اپنے ردعمل میں کہا تھا کہ یروشلم کو اس کارروائی کی سزا دی جانی چاہیے جبکہ دوسری جانب ترک حکومت اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو کم ترین سطح پر لانے پر غور کر رہی ہے۔ ترکی نے اس واقعے کے بعد تل ابیب سے اپنے سفیر کو بھی واپس بلا لیا۔ اس کے علاوہ ترکی نے اسرائیل کے ساتھ مجوزہ فوجی مشقیں بھی منسوخ کرنے کا اعلان کیا۔
رپورٹ :عاطف توقیر/خبر رساں ادارے
ادارت :گوہر نذیر گیلانی