ایلان کردی کی ہلاکت کا مقدمہ، دو اسمگلروں کو سزائے قید
4 مارچ 2016خبر رساں ادارے اے ایف پی ترک حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ چار مارچ بروز جمعہ ایک عدالت نے انسانوں کے دو اسمگلروں کو سزائے قید سنا دی ہے۔ شامی بچے ایلان کردی کی ہلاکت میں ملوث ہونے پر دو شامی شہریوں پر مقدمہ کیا گیا تھا۔ ایلان کردی کی لاش کی تصویر نے عالمی برداری کو ہلاک کر رکھ دیا تھا۔
بودرم کی ایک عدالت نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے موافقہ الاباش اور عاصم الفرہاد کو انسانوں کے اسمگلر قرار دیا اور انہیں بالتریب چار سال اور دو ماہ کی سزا سنائی۔ تاہم عدالت نے ان دونوں کو مہاجرین کی ہلاکت کا ذمہ داری سے بری الذمہ قرار دیا۔
اگر ان شامی باشندوں پر اپن کوتاہی کے سبب مہاجرین کی ہلاکت میں ملوث ہو جاتا تو انہیں 35 برس کی سزائے قید سنائی جا سکتی تھی۔ دانستہ طور پر کوتاہی کے مرتکب ہونے کے الزام کے تحت ان پر پانچ مہاجرین کی ہلاکت کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ ان افراد میں شامی بچہ ایلان کردی بھی شامل تھا۔
ترک سمندری ساحل پر اوندھے منہ پڑی تین سالہ ایلان کردی کی لاش کی تصویر مہاجرین کے بحران کی صعوبتوں کی علامت بن گئی تھی۔
یہ تصویر گزشتہ برس ستمبر پر منظر عام پر آئی تھی تو یورپی رہنماؤں نے مہاجرین کے بحران سے نمٹنے کا عہد کیا تھا۔ تاہم اب یہ بحران اتنا شدید ہو چکا ہے کہ یورپی ممالک بھی منقسم نظر آتے ہیں۔
بوردم سے یونانی جزیرے کوس پہنچنے کی کوشش میں ایلان کردی کے ساتھ اس کی ماں ریحانہ اور چار سالہ بھائی غالب بھی ہلاک ہو گئے تھے۔
یہ امر اہم ہے کہ مشرق وسطیٰ کے شورش زدہ ممالک سے فرار ہونے والے مہاجرین پہلے ترکی پہنچتے ہیں، جہاں سے وہ بحیرہ ایجیئن کے پانیوں سے یونان پہنچتے ہیں۔ اسی کوشش میں کئی کشتیوں سمندر برد ہو جاتی ہیں اور بہت سے لوگ ڈوب کر ہلاک ہو جاتے ہیں۔
یورپی یونین نے سمندری راستوں میں ایسے مہاجرین کی کشتیوں کو بچانے کے لیے آپریشن بھی شروع کر رکھا ہے۔ کوشش ہے کہ انسانوں کے اسمگلروں کے خلاف مناسب کارروائی کی جا سکے تاکہ لوگوں کو یورپ اسمگل کرنے کی کوشش کو روکا جا سکے۔