ایمنسٹی نے سوچی سے انسانی حقوق کا ایوارڈ واپس لے لیا
13 نومبر 2018ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق نوبل انعام یافتہ آنگ سان سوچی سے ایوارڈ واپس لینے کے اس فیصلے کی وجہ میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف ہونے والے مظالم اور زیادتیوں کے حوالے سے آنگ سان سوچی کی جانب سے مناسب کردار ادا کرنے میں ناکامی ہے۔
میانمار میں آنگ سان سوچی کی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی 2015ء میں برسر اقتدار آئی تھی۔ میانمار کی فوج کی طرف سے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف کارروائیوں پر سوچی کی طرف سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا تھا۔ ایمنسٹی کے علاوہ کئی دیگر یونیورسٹیز اور ادارے بھی سوچی کو دیے گئے اعزازات واپس لے چکے ہیں۔
بین الاقوامی فوج داری عدالت نے روہنگیا معاملے کی تحقیقات شروع کر دیں
ناقابل دفاع عمل کا دفاع
دوسری جانب ملائیشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد نے بھی میانمار کی اس خاتون رہنما کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ان کا کہنا تھا، ’’روہنگیا مسلمانوں کے خلاف کارروائیاں ناقابل دفاع ہیں۔‘‘ ترانوے سالہ وزیراعظم نے سنگاپور میں جاری جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کے اجلاس آسیان سے قبل صحافیوں کو بتایا، ’’ایسا لگ رہا ہے کہ آنگ سان سوچی ناقابل دفاع عمل کا دفاع کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔‘‘
بعد ازاں آسیان اجلاس کی افتتاحی تقریب اور استقبالیہ عشائیے کے دوران دونوں رہنما ایک ساتھ تشریف فرما تھے۔ تاہم وہ ایک دوسرے کو نظر انداز کرتے دکھائی دیے۔ سوچی کے دفاع میں ان کے چند حمایتیوں کا کہنا ہے کہ میانمار کی حکومتی معاملات میں آج بھی عسکری قیادت زیادہ سیاسی اثر و رسوخ رکھتی ہے۔ تاہم سوچی کے ناقدین سمجھتے ہیں کہ روہنگیا مسلمانوں کے تحفظ کے سلسے میں جمہوری حکومت کی کارکردگی انتہائی ناقص رہی ہے۔
واضح رہے کہ میانمار حکومت کے لیے روہنگیا مہاجرین کی بنگلہ دیش سے واپسی کا معاملہ بھی سفارتی سطح پر ایک تنازعے کا باعث بنا ہوا ہے۔
ع آ / ا ا (خبر رساں ادارے)