1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایکواڈور نے اسانج کو سیاسی پناہ دے دی

16 اگست 2012

تہلکہ خیز انکشافات کرنے والی ویب سائٹ وکی لیکس کے بانی جولیان اسانج نے کیٹو حکومت کی طرف سے سیاسی پناہ دیے جانے کو اپنی جیت قرار دیا ہے جبکہ لندن حکومت کے بقول اس نئی پیشرفت کے باوجود انہیں سویڈن کے حوالے کیا جائے گا۔

https://p.dw.com/p/15qTa
تصویر: Reuters

ایکواڈور کی حکومت نے جولیان اسانج کو سیاسی پناہ دینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ایکواڈور کے وزیر خارجہ ریکارڈو پاٹینیو نے آج بروز جمعرات دارالحکومت کیٹو میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وکی لیکس کے بانی جولیان اسانج کی طرف سے دائر کی گئی اپیل کے بغور جائزے کے بعد انہیں سیاسی پناہ دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

لندن حکومت نے کیٹو حکومت کے اس فیصلے پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سیاسی پناہ کے اعلان کے باوجود جولیان اسانج کو سویڈن کے حوالے کیا جائے گا۔ برطانوی وزارت خارجہ کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ لندن پولیس اسانج کو گرفتار کرنے کے لیے تیار ہے کیونکہ وہ 2010ء میں اپنی ضمانت کی شرائط کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہیں۔

Ecuadors Außenminister Ricardo Patino Archivbild
نو آبادیات کے زمانے کبھی کے ختم ہو چکے ہیں، پاٹینیوتصویر: picture-alliance/dpa

ایکواڈور حکومت کی طرف سے اسانج کو سیاسی پناہ دینے کا فیصلہ لندن حکومت کی اس دھمکی کے ایک دن بعد سامنے آیا ہے، جس میں کہا گیا کہ جولیان اسانج کی گرفتاری کے لیے لندن میں ایکواڈور کے سفارتخانے پر چھاپہ بھی مارا جا سکتا ہے۔ کیٹو حکومت کے ساتھ ساتھ تہلکہ خیز انکشافات کرنے والی ویب سائٹ وکی لیکس نے بھی لندن حکومت کے اس بیان پر شدید ردعمل ظاہر کیا ہے۔

وکی لیکس ویب سائٹ کے بانی جولیان اسانج رواں برس جون سے لندن میں قائم کیٹو کے سفارتخانے میں پناہ لیے ہوئے ہیں تاکہ انہیں سویڈن کے حوالے نہ کیا جا سکے۔ اسانج پر سویڈن میں جنسی حملے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ اسانج کا کہنا ہے کہ اسٹاک ہولم حکومت انہیں امریکا کے حوالے کر دے گی، جہاں ان کی جان کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ اسی لیے وہ ایکوڈور میں پناہ کے متلاشی ہیں۔

جعمرات کو وکی لیکس کی ویب سائٹ پر ایک بیان جاری کیا گیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ اس طرح کی دھمکی غیر دوستانہ اور انتہائی سخت ہے۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ایسی دھمکی کسی بھی حالت میں موزوں نہیں ہے۔ جولیان اسانج کی ویب سائٹ کے مطابق یہ دنیا بھر میں پناہ کے متلاشی افراد کے حقوق پر ایک ایسا حملہ ہے، جس کی ماضی میں کوئی بھی مثال نہیں ملتی ہے۔

ایکواڈور کے وزیر خارجہ ریکارڈو پاٹینیو نے گزشتہ روز کہا تھا کہ انہیں لندن حکومت کی طرف سے دھمکی موصول ہوئی ہے کہ اگر جولیان اسانج کو ان کے حوالے نہیں کیا جاتا تو لندن میں ایکواڈور کے سفارتخانے میں ممکنمہ طور پر کارروائی بھی کی جا سکتی ہے۔

Ecuadorianische Botschaft in London
لندن میں کیٹو کا سفارتخانہتصویر: Reuters

ریکارڈو پاٹینیو نے ملکی صدر Rafael Correa کے ساتھ ایک ملاقات کے بعد صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے بڑے جذباتی انداز میں کہا تھا، ’’ ہم یہ بات پوری طرح سے واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ ہم کوئی برطانوی نو آبادی نہیں ہیں، نو آبادیات کے زمانے کبھی کے ختم ہو چکے ہیں‘‘۔

وکی لیکس ویب سائٹ کے مطابق پولیس نے لندن میں ایکواڈور کے سفارتخانے کا محاصرہ کر رکھا ہے، جو طاقت کے مظاہرے سے کم نہیں ہے، ’’سفارتخانے کی سکیورٹی کے خلاف کوئی بھی غیر قانونی عمل یک طرفہ اور شرمناک ہو گا۔ ایسا عمل جنیوا کنونشن کی بھی خلاف ورزی ہو گا، جس میں دنیا بھر میں سفارتخانوں کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے‘‘۔

وکی لیکس نے یہ الزام بھی عائد کیا ہے کہ لندن حکومت ایکواڈور پر دباؤ ڈال کر اسانج کی وہاں پناہ کے حوالے سے کیے جانے والے اس کے فیصلے پر اثر انداز ہونا چاہتی ہے۔ مزید کہا گیا ہے، ’’ ہم عوام کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ایسے شخص کی گرفتاری کے لیے غیر معمولی کارروائیاں کی جا رہی ہیں، جس پر کسی بھی ملک میں کسی بھی جرم کے سلسلے میں فرد جرم عائد نہیں کی گئی ہے‘‘۔

ab/aa (AFP)