1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایک اور افریقی بچی نسوانی ختنے کی بھینٹ چڑھ گئی

20 جولائی 2018

وسطی صومالیہ میں ایک دس سالہ بچی جنسی اعضاء کی قطع و برید کے دوران ہلاک ہو گئی ہے۔ بچی کی ہلاکت پر انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے اس رواج کو مجرمانہ قرار دینے کا مطالبہ ایک بار پھر زور پکڑ گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/31ot4
Bildergalerie Afrika Genitalverstümmelung
تصویر: Reuters/S. Modola

صومالیہ کم عمر بچیوں کے نازک اعضاء کے آپریشن کرنے کے حوالے سے دنیا بھر میں سر فہرست ہے۔ یہ رسم زیادہ تر بر اعظم افریقہ کے کئی ایک ممالک میں رائج ہے۔

ہلاک ہونے والی بچی کو اس کی والدہ اس ماہ کی چودہ تاریخ کو ایک روایتی ختنہ کرنے والی دائی کے پاس لے گئی تھی۔ تاہم ختنے کے بعد بچی کا خون بہنا بند نہیں ہوا اور دو روز ہسپتال میں رہنے کے بعد یہ بچی موت کی بانہوں میں چلی گئی۔

ایک مقامی رائٹس گروپ ’گال کایو ایجوکیشن سینٹر فار پیس اینڈ ڈیویلیپمنٹ‘ کی ڈائریکٹر حوا عدن محمد نے تھوماس روئٹرز فورم کو بتایا،’’بظاہر یہی لگتا ہے کہ آپریشن کے دوران ختنہ کرنے والی خاتون سے بچی کی کوئی اہم رگ کٹ گئی ہے۔ ابھی تک اس عورت کو گرفتار نہیں کیا گیا ہے لیکن اگر کیا بھی جائے تو ایسا کوئی قانون نہیں جو اسے سزا دلا سکے۔‘‘

Symbolbild FGM
تصویر: picture alliance/dpa/EPA/UNICEF/HOLT

اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں دو سو ملین بچیاں نسوانی ختنے کے عمل سے گزر چکی ہیں۔ اس طرح ان بچیوں کو سنجیدہ نوعیت کے صحت کے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔

بچیوں کے نازک جسمانی اعضاء کو کاٹنے کے لیے آپریشن کے نام پر جو کارروائی کی جاتی ہے وہ کوئی ماہر ڈاکٹر یا کوئی سرجن نہیں کرتا بلکہ اس کے لئے کسی بھی دائی یا دیہی علاقے کی کسی خاتون جراح کی خدمات لی جاتی ہیں۔

یہ قدیمی رواج کم سے کم ستائیس افریقی ممالک اور ایشیا و مشرق وسطی کے بھی کچھ حصوں میں رائج ہے جس میں روایتی بلیڈ استعمال کیے جاتے ہیں۔ یہ بلیڈز یا چاقو عموماﹰ طبی معیارات کے مطابق جراثیموں سے پاک بھی نہیں کیے جاتے۔

اقوام متحدہ نے اس عمل کو انسانی حقوق کی پامالی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر موجودہ روایات برقرار رہیں تو آئندہ پندرہ برسوں کے دوران نسوانی ختنوں کا شکار بننے والی خواتین کی تعداد غیر معمولی طور پر بڑھ جائے گی۔

ص ح / ا ا / تھومس روئٹرز فورم