ایک تہائی افغان بچے تعلیم سے محروم: سیو دی چلڈرن
23 مارچ 2017بچوں کی بہبود کے لیے کام کرنے والی فلاحی تنظیم ’سیو دی چلڈرن‘ کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت افغانستان میں 3.7 ملین بچے اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے سے محروم ہیں۔ ’سیو دی چلڈرن‘ کے مطابق توقع ہے کہ افغانستان میں عدم استحکام کی بڑھتی ہوئی صورتِ حال اور پاکستان سے افغان پناہ گزینوں کی جبری واپسی کے سبب قریب چار لاکھ بچے امسال اسکول جانے سے محروم ہو جائیں گے۔
سن 2016 میں چھ لاکھ افغان مہاجرین کوپاکستان سے واپس افغانستان بھیجا گیا ہے۔ پاکستانی حکام کی جانب سے قواعد و ضوابط زیادہ سخت ہونے کے بعد رواں برس مزید ایک ملین افغان باشندوں کی پاکستان سے جبری واپسی متوقع ہے۔ بچوں کی فلاحی تنظیم ’سیو دی چلڈرن‘ کے مطابق پاکستان سے افغانستان لوٹنے والے بچوں کی نصف سے زیادہ تعداد اسکول جانے کے بچائے سڑکوں پر کام کرتی نظر آتی ہے کیونکہ اُن کے والدین کو ملازمتیں نہیں مل سکیں۔
افغانستان میں ایک جانب اقتصادی بحران میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے تو دوسری جانب طالبان کا دائرہ کار بھی وسیع ہو رہا ہے۔ دریں اثنا حالیہ برسوں میں ملک سے مغربی ممالک کے فوجی انخلا کے ساتھ ساتھ اقتصادی امداد میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔
چھ ماہ قبل پاکستان سے واپس لوٹنے والے ایک گیارہ سالہ افغان بچے نے خبر رساں ادارے اے پی کو بتایا، ’’میرے والد آئس کریم بیچتے ہیں اور میرا بھائی پلاسٹک کے تھیلے فروخت کرتا ہے۔ ہم صرف کھانے کے لیے تھوڑی سی رقم کما پاتے ہیں۔ میں کیا کر سکتا ہوں؟ میں اسکول نہیں جا سکتا۔‘‘ نیا تعلیمی سال شروع ہونے پر جہانگیر کی خواہش تھی کہ وہ اسکول جا سکتا۔
افغانستان میں ’سیو دی چلڈرن‘ کی سربراہ اینا لوکسِن کے مطابق، ’’افغانستان میں آج خوشی کا دن ہونا چاہیے کہ ایک لمبے موسمِ سرما کے بعد بچے پہلے دن اسکول جا تے ہیں۔ لیکن اس کے بجائے یہ ایک المیہ ہے کہ یہاں لاکھوں بچے تعلیم حاصل نہیں کر سکتے کیونکہ انہیں زندہ رہنے کے لیے جدو جہد کرنی ہے۔‘‘