1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایک دو روز میں جنگی بندی ہو جائے گی، مولانا سمیع الحق

شکور رحیم، اسلام آباد14 فروری 2014

پاکستان میں حکومت اور طالبان کی نمائندہ مذاکراتی کمیٹیوں نے دہشتگردی کی حالیہ کاروائیوں پر دکھ اور افسوس کا اظہار کرتےہوئے کہا ہے کہ ان کاروائیوں کے مذاکراتی عمل پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

https://p.dw.com/p/1B8bV
تصویر: Aamir Qureshi/AFP/Getty Images

آج جمعہ 14 فروری کو حکومتی اور طالبان کمیٹیوں کا دوسرا باضابطہ اجلاس اسلام آباد میں واقع خیبر پختوانخوا ہاؤس میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں حکومتی کمیٹی کے ارکان عرفان صدیقی، رستم شاہ مہمند، میجر (ر) محمد عامر اور رحیم اللہ یوسفزئی جبکہ طالبان کی نمائندہ کمیٹی کے ارکان مولانا سمیع الحق اور پروفیسر ابراہیم اور مولانا یوسف شاہ نے شرکت کی۔

مذاکراتی کمیٹیوں نے حالیہ دہشت گردانہ حملوں پر دکھ کا اظہار کیا ہے
مذاکراتی کمیٹیوں نے حالیہ دہشت گردانہ حملوں پر دکھ کا اظہار کیا ہےتصویر: Reuters

اجلاس کےبعد جاری کیے گئے مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا ہے، ’’حکومتی کمیٹی نے کراچی میں دہشتگردی کی حالیہ کاروائیوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ امن کے خلاف کاروائیوں سے مذاکرات جاری رکھنا مشکل ہو جائے گا۔حکومتی کمیٹی نے زور دیا کہ طالبان ہر قسم کی امن مخالف سرگرمیاں ختم کر دیں اور اس پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے۔‘‘

ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے طالبان کی نمائندہ کمیٹی کے سربراہ مولانا سمیع الحق کا کہنا تھا کہ ملک میں یہ جنگ 12 سال سے جاری ہے، اتنی جلدی ختم نہیں ہو سکتی۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ ایک دو روز مین جنگ بندی ہو جائے گی۔ مولانا سمیع الحق نے اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ مذاکراتی کمیٹیوں کے درمیان کسی قسم کا ڈیڈ لاک پیدا ہو گیا ہے۔

دوسری جانب حکومت پر شدت پسندوں کے خلاف فیصلہ کن ایکشن لینے کے لئے دباؤ بڑھتا جارہا ہے۔ حزب اختلاف کی جماعتوں کا کہنا ہے کہ حکومت کو پہلے ہی طالبان پر واضح کرنا چاہیے تھا کہ کسی بھی قسم کی دہشتگردانہ کارروائی کی صورت میں مذاکرات کا عمل ختم ہو جائے گا۔

آج جمعہ 14 فروری کو حکومتی اور طالبان کمیٹیوں کا دوسرا باضابطہ اجلاس اسلام آباد میں واقع خیبر پختوانخوا ہاؤس میں منعقد ہوا
آج جمعہ 14 فروری کو حکومتی اور طالبان کمیٹیوں کا دوسرا باضابطہ اجلاس اسلام آباد میں واقع خیبر پختوانخوا ہاؤس میں منعقد ہواتصویر: Aamir Qureshi/AFP/Getty Images

عوام کو تحفظ فراہم کرنے میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی ناکامی پر تنقید کرتے ہوئے عوامی نیشنل پارٹی کے سینیٹر شاہی سید نے کہا کہ جب سے مذاکرات کا عمل شروع ہوا ہے صوبہ خیبرپختونخوا میں اب تک دہشتگردی کے 20 واقعات میں 120 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا: ’’مذاکرات کا یہ مطلب نہیں کہ وہ دھماکے جاری رکھیں اور مذاکرات بھی رہیں۔ دوسری بات اب دیکھنا یہ ہے کہ مذاکرات کس سے کر رہے ہیں، کیونکہ جو لوگ زیادہ دھماکے کر رہے ہیں وہ تو دوسرا گروپ ہے۔ وہ تو مان نہیں رہے۔ لہذا ہمیں اِن سے چھوڑ کر ان سے مذاکرات کرنے ہیں جو دھماکے کر رہے ہیں تاکہ ملک کو نقصان نہ پہنچائیں۔‘‘

طالبان سے مذاکرات کی مخالف متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیوایم) کے راہنماؤں کا کہنا ہے کہ حکومت نے اگر مذاکرات کرنے ہی تھے تو اس کے لیے کمزور پوزیشن نہ اپنائی جاتی۔ ایم کیو ایم کے رکن قومی اسمبلی صلاح الدین شیخ کا کہنا ہے: ’’اُس وقت بھی ہمارا یہ کہنا تھا کہ آپشنز رکھیں اور ایک ٹائم پیریڈ رکھیں اور اس ٹائم پیریڈ کے بعد ایکشن لینا ہوگا۔ اگر آپ ایکشن نہیں لیں گے تو پھر اللہ ہی حافظ ہے۔ ہم دعا ہی کر سکتے ہیں کہ اللہ تعالی پاکستان کو جو حالات درپیش ہیں ان سے باہر نکالے۔‘‘