بحرین میں اپوزیشن کارکنوں کو عمر قید کی سزائیں
22 جون 2011متحدہ عرب امارات میں دبئی سے آمدہ رپورٹوں کے مطابق بحرین میں گزشتہ ہفتوں اور مہینوں کے دوران جو خونریز عوامی مظاہرے دیکھنے میں آئے تھے، ان کے نتیجے میں بحرین کے امیر نے ملک میں قومی سطح کی ایک مفاہمتی مکالمت کا اعلان کر دیا تھا۔
لیکن اب جبکہ بحرین کے امیر کے تجویز کردہ قومی مصالحتی مذاکرات کے آغاز میں صرف ایک ہفتہ رہ گیا ہے، ملک میں شیعہ عقیدے کی حامل اکثریتی آبادی سے تعلق رکھنے والے اپوزیشن کارکنوں کو عمر قید کی سزائیں سنا دی گئی ہیں۔ بحرین کی سرکاری خبر ایجنسی بی این اے کے مطابق مناما میں قومی سلامتی کی عدالت نے جن ملزمان کو سزائیں سنائی ہیں، ان میں 13 ایسے اپوزیشن کارکن بھی شامل ہیں، جنہیں دو سال سے لے کر 15 سال تک کی سزائے قید کا حکم سنایا گیا ہے۔
بحرین میں شیعہ اکثریتی آبادی کی قومی سطح کی سب سے بڑی تنظیم الوفاق نے اس عدالتی فیصلے اور اس کے تحت سنائی گئی سزاؤں کی مذمت کی ہے۔ الوفاق کے مرکزی رہنماؤں نے کہا کہ یہ سزائیں بحرین کے امیر شیخ حماد کی طرف سے ان مفاہمتی مذاکرات کی دعوت کی نفی کرتی ہیں، جو اب تک کے پروگرام کے مطابق یکم جولائی سے شروع ہونا ہیں۔
الوفاق کے مزکری رہنما خلیل مرزوق نے آج مناما میں ایک پریس کانفرنس میں جو کچھ کہا، اس کے اقتباسات انٹرنیٹ پر ان کے فیس بک پیج پر بھی جاری کر دیے گئے۔ خلیل مرزوق نے سوال کیا کہ اس وقت بحرین میں جو ماحول ہے، آیا اس ماحول میں وہاں قومی سطح کی مصالحتی بات چیت ممکن ہے؟
انہوں نے کہا کہ جن سیاسی شخصیات کو سزائیں سنائی گئی ہیں، ان میں ایسی شخصیات بھی شامل ہیں، جنہیں مذاکرات کی دعوت نہیں دی گئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ان شخصیات کے بغیر کوئی بھی مذاکراتی کوشش کیسے کامیاب ہو سکتی ہے۔ جن آٹھ شیعہ شخصیات کو آج سزائیں سنائی گئیں، ان میں اپوزیشن کی شیعہ تحریک حق موومنٹ کے سربراہ حسن مشائما بھی شامل ہیں اور شیعہ کارکنوں ہی کی ایک اور تنظیم وفا اسلامک موومنٹ کے سربراہ عبدالوہاب حسین بھی۔ سزا یافتہ افراد میں سے ایک عبدالہادی الخواجہ ڈنمارک کے شہری ہیں۔
رپورٹ: عصمت جبیں
ادارت: مقبول ملک