بحیرہء روم میں ہلاکتیں، یورپی یونین بھی ’شریکِ جرم‘
5 نومبر 2016
بحیرہء روم میں تارکینِ وطن کی ہلاکتوں کے حوالے سے ایک اور خونی ہفتہ اختتام پذیر ہونے کے بعد رواں برس کے آغاز سے اب تک سمندر میں ڈوب کر مرنے والوں کی تعداد 4220 ہو گئی ہے۔
عالمی ادارہ مہاجرت کے مطابق رواں برس ہونے والی ہلاکتوں کی یہ تعداد سن 2014 اور سن 2015 میں بحیرہء روم کی ہلاکت خیز موجوں کا لقمہ بننے والے پناہ گزینوں کی کُل تعداد اور کسی بھی سال کی اب تک کی ریکارڈ شدہ اموات کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔
فلاحی طبی تنظیم’ڈاکٹرز وِد آؤٹ بارڈرز‘ کے اٹلی آفس کے سر براہ ٹوماسو فابری کا کہنا تھا،’’ اِس نئے اور شرمناک ریکارڈ کے سامنے آنے کے بعد یورپی یونین یہ باور کرانے کی کوشش نہیں کر سکتی کہ کچھ غلط نہیں ہو رہا اور نہ ہی خود کو اِس بڑے سانحے میں شریکِ جرم ہونے سے بچا سکتی ہے۔‘‘ فابری نے مزید کہا،’’ اِن مایوس لوگوں کو یورپ پہنچانے کے لیے محفوظ اور قانونی راستے اختیار کیے جانے کی فوری ضرورت ہے تاکہ ہلاکتوں کا رسک نہ رہے۔‘‘
گزشتہ روز ڈاکٹرز وِد آؤٹ بارڈرز کے امدادی جہاز ’ایم ایس ایف‘ نے 867 کے قریب تارکینِ وطن کو سمندر میں ڈوبنے سے بچایا۔ ان میں 119 خواتین اور آٹھ بچے بھی شامل تھے۔ کچھ بچوں کی عمرصرف چند ماہ تھی۔
رواں برس اکتوبر کے مہینے میں اٹلی پہنچنے والے پناہ گزینوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ اِس اضافے کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ غالباﹰ لیبیا کی کوسٹ گارڈ جلد ہی اپنے ساحلی علاقوں میں ’سرچ اینڈ ریسکیو آپریشن‘ کا آغاز کرنے والی ہے جس کے بعد خدشات ہیں کہ سمندر میں سفر کرنے والے تارکینِ وطن کو اٹلی کے بجائے واپس شورش زدہ شمالی افریقی ملک لیبیا میں پابند کیا جا سکے گا۔
لیبیا سے سمندر کے راستے اٹلی جانے والے مہاجرین کی روانگی کا سلسلہ رواں ماہ بھی جاری ہے۔
اطالوی کوسٹ گارڈ کے مطابق کل بروز جمعہ چار اکتوبر بھی دس ریسکیو آپریشنز کیے گئے جن میں ایم ایس ایف کے امدادی آپریشن سمیت بارہ سو کے قریب افراد کو سمندر بُرد ہونے سے بچایا گیا۔