بحیرہ روم نے مزید 200 مہاجرین نِگل لیے
6 اگست 2015سمندر کے اس حصے میں بھٹکنے والی دیگر کشتیوں کے مسافروں کی مدد کے لیے امدادی بحری جہاز طلب کر لیے گئے ہیں۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اٹلی اور آئرلینڈ کی بحریہ کے جہازوں اور انسانی ہم دردی کی بنیاد پر کام کرنے والی تنظیم MSF نے بدھ پانچ اگست کے روز بحیرہ روم میں الٹ جانے والی کشتی کے 370 سے زائد مسافروں کو بچایا۔ اطالوی کوسٹ گارڈز کے مطابق خیال کیا جا رہا ہے کہ اس کشتی پر 600 مہاجرین سوار تھے۔ آج جمعرات چھ اگست کو اطالوی کوسٹ گارڈز کی طرف سے مزید بتایا گیا ہے کہ امدادی جہازوں نے 25 لاشوں کو سمندر سے نکالا ہے مگر رات بھر سمندر کا جائزہ لینے کے بعد انہیں وہاں مزید بچ جانے والوں کا کوئی نشان نہیں ملا۔
ابتدائی رپورٹس میں مچھلیاں پکڑنے والی اس کشتی پر سوار مسافروں کی تعداد 700 بتائی گئی تھی۔ تاہم بچ جانے والے افراد سے حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق یہ تعداد 600 تک تھی۔ زیادہ تر مہاجرین کا تعلق شام سے تھا جو ملک میں جاری خانہ جنگی سے بچنے کے لیے یورپ پہنچنے کی کوشش میں تھے۔
روئٹرز کے مطابق بدھ کے روز یہ کشتی اس وقت اُلٹ گئی جب آئرلینڈ نیوی کا ایک امددی بحری جہاز LE Niamh اس کے قریب پہنچا۔ الٹنے کی ممکنہ وجہ کشتی پر سوار مسافروں کے اس کی ایک جانب جمع ہوجانا بنا۔
آئرلینڈ کے وزیر دفاع سیمون کووینی کے مطابق، ’’جو کچھ ہوا اس کی وجہ کشتی پر گنجائش سے کہیں زیادہ مسافروں کی موجودگی اور پھر صورت حال ایسی تھی کہ کشتی ایک سمت میں جھکی اور سمندر میں ڈوبتی چلی گئی۔ یہ سب کچھ دو منٹ کے اندر اندر ہوا۔‘‘
آئرلینڈ کا یہ امدادی جہاز دراصل یورپی یونین کی طرف سے جاری ’ٹریٹون مشن‘ کا حصہ ہے جو سمندر کے ذریعے یورپ پہنچنے کی کوشش کرنے والے مہاجرین کی مدد کے لیے شروع کیا گیا تھا اور رواں برس اپریل میں 800 مہاجرین کے ڈوب کر ہلاک ہو جانے کے بعد اس کا دائرہ کار بڑھا دیا گیا تھا۔
LE Niamh بچ جانے والے افراد کو لے کر پالیرمو پورٹ پہنچ رہا ہے۔ بحیرہ روم مہاجرین کے لیے خطرناک ترین سمندر سمجھا جاتا ہے۔ روئٹرز کے مطابق رواں برس اب تک 2000 سے زائد ایسے افراد اس سمندر کی موجوں کی نظر ہو چکے ہیں جو یورپ پہنچنے کی کوشش میں تھے۔ سال 2014ء کے دوران بحیرہ روم میں ڈوب کر ہلاک ہونے والوں کی تعداد 3,279 ہو چکی ہے۔