بدعنوانی کے خاتمے میں انتہائی سنجیدہ ہیں: من موہن سنگھ
16 فروری 2011من موہن سنگھ کا کہنا تھا کہ بھارت میں بدعنوانی کے یکے بعد دیگرے کئی اسکینڈل منظر عام پر آنے کے بعد ملک کی ساکھ کو نقصان پہنچا ہے، اور ان کی حکومت اس ساکھ کی بہتری کے لیے ہرممکن اقدمات کرے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ جانتے ہیں کہ کچھ لوگ اس معاملے میں انہیں انتہائی غیرمؤثر یا بے دست وپا قرار دے رہے ہیں۔
بھارتی وزیراعظم نے بدعنوانی کے خاتمے کے لیے اپنا عزم ظاہر کرتے ہوئے کہا، ’’میں آپ کو اور بحیثیت مجموعی پوری قوم کو یہ یقین دہانی کراتا ہوں کہ ہماری حکومت تمام بدعنوان افراد کو منظر عام پر لائے گی، بھلے وہ کتنے ہی بڑے عہدے پر کیوں نہ ہوں۔‘‘
اپنے استعفے سے متعلق افواہوں کے سوال پر من موہن سنگھ کا کہنا تھا کہ انہوں نے کبھی بھی وزارت عظمیٰ چھوڑنے کے بارے میں نہیں سوچا۔ انہوں نے خود پر تنقید کرنے والوں سے کہا کہ وہ بھارت کی معاشی ترقی پر نظر ڈالیں اور عالمی سطح پر بھارت کی سفارتی کامیابیوں کو بھی دیکھیں۔ انہوں نے اس موقع پر بتایا کہ رواں برس مارچ تک ملک میں معاشی نمو کی شرح 8.5 فیصد تک پہنچ جائے گی۔
اپنے خصوصی خطاب میں من موہن سنگھ نے میڈیا سے درخواست کی کہ وہ حکومت کو درپیش مسائل کو بڑھا چڑھا کر پیش نہ کریں، ’’ہمیں ایسی صورتحال پیدا نہیں کرنی چاہیے کہ ملک کی خود اعتمادی کو ٹھیس پہنچے۔‘‘
بھارتی وزیراعظم نے ملک میں افراط زر کی بڑھتی ہوئی شرح کے مسئلے پر بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ بھارت میں اشیائے ضرورت کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے من موہن سنگھ حکومت تیزی سے غیر مقبول ہورہی ہے، جبکہ ابھی ان کی حکومت کے دوبارہ انتخاب کو محض 18 ماہ ہی گزرے ہیں۔ سنگھ کے مطابق، ’’یہ بات یقیناﹰ درست ہے کہ رواں مہینوں میں مہنگائی اور خاص طور پر اشیائے خوراک کی قیمتیں بڑھی ہیں، تاہم ہم اس معاملے کو اس طرح حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ملکی ترقی بھی اس سے متاثر نہ ہو۔‘‘ وزیراعظم کے مطابق رواں برس مارچ تک افراط زر کی شرح کم ہوکر 7 فیصد تک آ جائے گی، جوکہ جنوری میں 8.23 فیصد رہی تھی۔
کانگریس پارٹی سے تعلق رکھنے والے من موہن سنگھ کی اعتدال پسند دائیں بازو کی مخلوط حکومت کو بدعنوانی کے کئی اسکینڈل سامنے آنے کے بعد شدید تنقید کا سامنا ہے۔ انہی اسکینڈلز میں سے ایک سال 2008ء میں موبائل فون لائسنسوں کی فروخت سے متعلق ہے۔ تب یہ لائسنس اصل قیمت کے مقابلےمیں بہت سستے داموں فروخت کر دیے گئے تھے۔
رپورٹ: افسر اعوان
ادارت: مقبول ملک