بدنام زمانہ گوانتا ناموبے جیل کی ایک اور کہانی
13 فروری 2010اوباما حکومت ان ميں سے 45 قيديوں کو امريکہ سے باہر کسی دوسرے ملک ميں بھيجنے کی کوشش کررہی ہے۔ انسانی حقوق کی تنظيم ايمنيسٹی انٹر نيشنل کا کہنا ہے کہ اگر ان قيديوں کو چين، ليبيا، روس، شام اور تيونس جيسے ملکوں ميں واپس بھيجا گيا تو ان کو شدید اذيتوں کا نشانہ بنايا جائے گا۔ اس لئے وہ جرمنی سے اپيل کررہی ہے کہ وہ ان قيديوں ميں سے چند کو قبول کرلے۔
معظم بيگ ، گوانتا نامو اور اُس کے علاوہ افغانستان ميں بھی قيد رہ چکے ہيں۔ افغانستان ميں امريکہ کے قيد خانے قندہار اور بگرام ميں ہيں جہاں دہشت گردی کے شبے ميں ملزمان کو بند رکھا جاتا ہے۔ معظم بيگ سن 2002 سے سن 2005 تک قيد رہے۔ رہا ہونے کے بعد سے وہ ان افراد کی رہائی کی کوشش کررہے ہیں جو ابھی تک قيد ميں ہيں۔
بيگ، برطانوی شہری ہيں اور وہ برمنگھم ميں رہتے ہيں۔ ان کا کہنا ہے کہ: ''مجھے علم نہيں تھا کہ ميں کبھی اپنے خاندان کو دوبارہ ديکھ سکوں گا يا مجھے پھانسی دے دی جائے گی اور يا پھر کئی برسوں تک قيد کی زندگی گزارنا پڑے گی۔مجھ سے پوچھ گچھ کرنے والوں نے کچھ اسی قسم کی بات کی تھی''۔
گوانتا نامو کے سابق قيدی معظم کا کہنا ہے کہ گوانتانامو اس سارے سلسلے کی صرف ايک کڑی ہے کيونکہ دہشت گردی کے شبے ميں پکڑے جانے والے افراد کوگوانتا نامو لائے جانے سے پہلے دوسرے ملکوں ميں بھی قيدميں رکھا گيا تھا۔ يہاں ان کو طرح طرح کی اذيتيں دی گئيں، مارا پيٹا گيا اور ان کے ساتھ جنسی زيادتياں بھی کی گئيں۔ يہ دھمکياں بھی دی گئيں کہ ان کے گھر والوں کو بھی نشانہ بنايا جائے گا۔اس کے نتيجے ميں بلآخر کبھی نہ کبھی جھوٹا اقرارنامہ لکھوا ديا جاتا ہے۔
امريکی صدر اوباما نے صدر بننے کے بعد ايک سال کے اندر گوانتا نامو جيل بند کردينے کا اعلان کيا تھا ليکن، معظم بيگ کے ساتھ مل کر گوانتانمو کے تقريباً 40 بے قصور قيديوں کے يورپ ميں قبول کئے جانے کی مہم چلانے والے وکيل کاتس نيلسن کا کہنا ہے کہ اوباما نے اپنے ملک کے اندر پائے جانے والے جذبات کا غلط اندازہ لگايا تھا۔ امريکہ ميں فضا بہت زہر آلود ہے وہاں گوانتا نامو کے قيديوں کی بڑی بھيانک تصوير پيش کی جاتی ہے۔
وکيل کاتس نيلسن کا کہنا ہے کہ ايک تحقيقاتی رپورٹ کے مطابق گوانتا نامو لائے جانے والے قيديوں کی اکثريت کو امريکی فوج نے نہيں بلکہ پاکستانيوں اور افغانوں نے گرفتار کيا تھا۔ اکثر انہيں گرفتار کرنے والے ديہاتی تھے جنہيں ان لوگوں کو گرفتار کرا نے پر بھاری رقوم بطور انعام ادا کی گئيں۔ ايک ايسے علاقے ميں ،جہاں انتہائی غربت ہے، ايک بڑی رقم کے لالچ ميں کسی مسافر عرب يا کسی دوسرے فرد کو شکايت کر کے گرفتار کرا دينا کوئی مشکل بات نہيں تھی۔
اب تک فرانس ،بيلجنم، آئرلينڈ، پرتگال ،سوئٹزرلينڈ اور ہنگری نے گوانتا نمو کے قيديوں کو قبول کرنے پر آمادگی ظاہر کردی ہے اور معظم بيگ اور وکيل کاتس نيلسن کو اميد ہے کہ جرمنی بھی اس پر آمادہ ہوجائے گا۔
رپورٹ : شہاب احمد صدیقی
ادارت : شادی خان سیف