بربریت کی انتہا، ’جنسی زیادتی کے بعد لڑکیاں زندہ جلا دیں‘
30 جون 2015جنوبی سوڈان میں کام کرنے والے اقوام متحدہ کے مشن (UNMISS) کی طرف سے آج منگل 30 جون کو جاری کردہ ایک رپورٹ میں اس بات کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ وہاں 18 ماہ سے جاری خانہ جنگی کے دوران لڑائی میں بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کی گئی ہیں۔ یہ رپورٹ جنوبی سوڈانی ریاست ’یونیٹی‘ کے شمالی حصے میں شدید نوعیت کے فوجی آپریشن کا نشانہ بننے والے علاقوں کے 115 عینی شاہدین کے بیانات کی روشنی میں تیار کی گئی ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق سوڈان کی پیپلز لبریشن آرمی (SPLA) نے ریاست یونیٹی کے شمالی ضلع مایوم میں باغیوں کے خلاف بڑا فوجی آپریشن رواں برس اپریل میں شروع کیا۔ اقوام متحدہ کی طرف سے جاری کردہ بیان کے مطابق، ’’ان حملوں میں بچ جانے والوں نے بتایا کہ SPLA اور اس کی اتحادی ملیشیاؤں نے مقامی آبادی کے خلاف مہم شروع کی، جس دوران سویلین باشندوں کو ہلاک کیا گیا، انہیں لوٹا گیا اور دیہات تباہ کر دیے گئے۔ اس وجہ سے ایک لاکھ سے زائد افراد اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔‘‘
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق UNMISS کو حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق، ’’جنوبی سوڈان کی فوج نے خواتین اور لڑکیوں کو اغواء کیا، انہیں جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا اور ان میں سے بعض کو ان کے گھروں کے اندر زندہ جلا دیا۔‘‘
جنوبی سوڈان میں خانہ جنگی کا آغاز دسمبر 2013ء میں اس وقت ہوا تھا جبکہ ملکی صدر سلوا کیر نے اپنے سابق نائب ریک مچار پر الزام عائد کیا کہ وہ ان کی حکومت کے خاتمے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ اس کے بعد سے وہاں نہ ختم ہونے والی قتل وغارت گری کا سلسلہ جاری ہے۔
اقوام متحدہ کے بچوں کی بہبود کے ادارے کی طرف سے قبل ازیں رواں ماہ جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ متحارب فورسز بچوں کے خلاف بھی سنگین جرائم کی مرتکب ہوئی ہیں، جن میں ان کے جنسی اعضاء کاٹ دینے، ان سے جنسی زیادتی کرنے اور انہیں ایک ساتھ باندھ کر ان کے گلے کاٹ کر قتل کر دینے جیسے جرائم شامل ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق 12 ملین کی آبادی والے اس ملک کی دو تہائی آبادی کو امداد کی ضرورت ہے۔ ان میں سے قریب دو ملین افراد اپنا گھر بار چھوڑ چکے ہیں۔