برطانیہ: بد امنی پر قابو پانے کے لیے 'اسٹینڈنگ آرمی' تیار
5 اگست 2024برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹارمر کی زیر صدارت آج پیر کے روز ہونے والے ہنگامی اجلاس میں وزراء اور پولیس حکام بشمول اسکاٹ لینڈ یارڈ کے سربراہ مارک راولی نے شرکت کی۔ اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اسٹارمر نے بتایا کہ مجرموں کے خلاف فوری اور مؤثر کارروائی کے لیے حکومت نظام انصاف کو مظبوط بنائے گی۔
برطانیہ میں مسلم مخالف مظاہرے: 'مسجد جاتے ہوئے بھی خوف محسوس ہوتا ہے'
شمال مغرب ميں واقع شہر ساؤتھ پورٹ ميں گزشتہ پير کی شب ايک حملہ آور نے ٹيلر سوئفٹ کی تھيم پر منعقدہ ايک پارٹی ميں چاقو سے حملہ کر کے تين نابالغ بچيوں کو ہلاک اور پانچ مزید افراد کو زخمی کردیا تھا۔ اس واقعے کے بعد ملک کے دیگر قصبوں اور شہروں میں فسادات پھوٹ پڑے، جن میں تارکین وطن مخالف مظاہرین کا پولیس اور بعض مقامات پر مسلمان مظاہرین سے تصادم ہوا۔
وزیر اعظم نے اتوار کے روز ان مظاہرین کو خبردار کیا تھا کہ وہ برطانیہ میں 13 سال میں ہونے والے بد ترین فسادات میں حصہ لینے پر 'پچھتائیں گے۔ ' وزیر داخلہ یویٹ کوپر نے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کو بتایا کہ مجرمانہ بد نظمی میں ملوث افراد سے حساب لیا جائے گا۔
برطانیہ میں مسلمان نفرت انگیز واقعات میں اضافے پر پریشان
پولیس نے حالیہ پر تشدد واقعات کی ذمہ داری اسلام مخالف تنظیم 'انگلش ڈیفنس لیگ' کے حامیوں اور اس سے وابستہ دیگر تنظیموں پر عائد کی ہے۔
اتوار کے روز شمالی انگلینڈ کے شہر روڈرہم میں نقاب پوش مظاہرین نے پناہ گزینوں کے لیے قائم ایک ہوٹل کے شیشے توڑدیے۔ اس واقعے میں کم سے کم 10 پولیس اہلکار بھی زخمی ہوئے، جن میں سے ایک بے ہوش ہوگیا تھا۔
شمال مغربی علاقے بولٹن اور شمال مشرقی علاقے مڈلز بورو میں بھی بڑے پیمانے پر جھڑپیں ہوئیں، جہاں مظاہرین نے گھروں اور گاڑیوں کے شیشے توڑ دیے جبکہ پولیس نے 43 افراد کو گرفتار کرلیا۔
اتوار کی شام برمنگھم کے قریب پناہ گزینوں کے لیے قائم ایک اور ہوٹل کو نشانہ بنایا گیا، جس کے نتیجے میں ایک پولیس افسر بھی زخمی ہوا۔
برطانیہ: اسلام مخالف جذبات میں نمایاں اضافہ
پولیس نے تصدیق کی ہے کہ ہفتے کے روز سے اب تک 150 افراد کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔
ہنگامہ آرائی کرنے والوں نے پولیس پر اینٹیں، بوتلیں، اور آگ کے گولے پھینکے جس سے کئی پولیس اہلکار زخمی ہوگئے۔ مظاہرین نے اسلام مخلاف نعرے لگائے، لوٹ مار کی اور دکانوں کو بھی نذر آتش کیا۔
لیور پول میں عیسائی، مسلمان اور یہودی مذہبی رہنماوں نے مظاہرین سے پر امن رہنے کی اپیل کی ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ حالیہ مظاہروں کی ابتداء جزوی طور پر قتل کے ملزم برطانوی نژاد 17 سالہ ايکسل روداکوبانا کی شناخت کے حوالے سے سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی افواہوں کی وجہ سے ہوئی تھی۔
وزیر داخلہ یویٹ کوپر نے ان مظاہروں میں سوشل میڈیا کے اثرات کو 'راکٹ بوسٹر' کے مترادف قرار دیا، جس کے ذریعے اشتعال انگیز مواد تیزی سے پھیلایا گیا اور بد امنی میں اضافہ ہوا۔
’مسلمانوں کو سزا دیں‘، برطانیہ میں گمنام خطوط تقسیم
مشتعل افراد نے کم از کم دو مساجد کو بھی نشانہ بنایا ہے۔ جس کے بعد کوپر نے اتوار کے روز مسلمانوں کی عبادت گاہوں کو ہنگامی بنیادوں پر سکیورٹی فراہم کرنے کا اعلان کیا۔
یہ ریلیاں انتہائی دائیں بازو کے سوشل میڈیا چینلز پر 'بس بہت ہوچکا' کے نعرے کے تحت مشتہر کی گئی تھیں۔
اس دوران فسطائی نظریے کے مخالفین نے بھی کئی شہروں میں جوابی ریلیاں نکالیں۔
ح ف / ش ر (اے ایف پی)