بورس جانسن کے جانشین کے نام کا اعلان ستمبر میں
12 جولائی 2022برطانیہ کی حکمراں کنزرویٹیو پارٹی نے پیر کے روز بتایا کہ رخصت پذیر وزیر اعظم بورس جانسن کے جانشین کا انتخاب پانچ ستمبر کو ہوگا۔ اس وقت 11 امیدوار اس عہدے کی دوڑ میں شامل ہیں اور ووٹنگ کا عمل اس ہفتے شروع ہو جائے گا۔
نئے وزیر اعظم کے انتخاب کے عمل کی نگرانی کرنے والی کمیٹی کے چیئرمین گراہم بریڈی نے کہا "میری شدید خواہش ہے کہ یہ عمل آسانی، سہولت اور صاف ستھرے طریقے سے حتی الامکان جلد از جلد مکمل ہوجائے۔"
برطانیہ کے پارلیمانی نظام کے تحت بورس جانسن کے جانشین خود بخود وزیر اعظم بن جائیں گے اور اس کے لیے کسی عام انتخابات کی ضرورت نہیں ہوگی۔
گزشتہ ہفتے ہونے والی سیاسی اتھل پتھل کی وجہ سے جانسن کو اپنے عہدے سے استعفی دینا پڑا تھا۔ حالیہ ہفتوں میں تقریباً 50 سے زائد اراکین نے اپنے استعفے جانسن کو سونپ دیے تھے۔ کئی اسکینڈل کی وجہ سے جانسن کی اپنی ٹیم بھی ان کے خلاف ہوگئی تھی۔
وزیر اعظم کے انتخاب کے عمل کو تیز کرنے کے لیے امیدواروں کی دوڑ میں شامل ہونے کے لیے معمول کے آٹھ اراکین پارلیمان کے بجائے کم از کم 20 اراکین پارلیمان کی تائید کی ضرورت ہوگی۔ اور جو امیدوار پہلے دور کے مقابلے میں کم ازکم 30 اراکین پارلیمان کی حمایت حاصل کرنے میں ناکام ہوتا ہے وہ عہدے کی دوڑ سے باہر ہوجائے گا۔
جب بورس جانسن سے پوچھا گیا کہ کیا وہ کسی مخصوص امیدوار کی تائید کرتے ہیں تو انہوں نے اس سے انکار کردیا۔ جانسن کا کہنا تھا،"اس مرحلے پر وزیر اعظم کا کام ہے کہ فیصلہ پارٹی کو کرنے دے۔ انہیں ایسا کرنے دیجئے۔ اور ان پروجیکٹوں پر عمل درآمد کرنے دیں جن کے لیے ہمیں منتخب کیا گیا تھا۔"
خواہش مند کون ہیں؟
کنزرویٹیو پارٹی کے نئے لیڈر کا انتخاب دو مرحلوں میں کیا جائے گا۔ جو امیدوار کم از کم 30 ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوں گے وہ اگلے مرحلے میں نہیں پہنچ پائیں گے۔ کنزرویٹیو پارٹی کے 358اراکین پارلیمان آخر میں صرف دو امیدواروں کا انتخاب کریں گے۔
پارٹی کے ملک بھر میں موجود اراکین ان دو امیدواروں میں سے کسی ایک کو پارٹی کا رہنما منتخب کریں گے جو بورس جانسن کا جانشین ہوگا۔
بورس جانسن کا ممکنہ جانشین بننے کے لیے اس وقت امیدواروں کی ایک طویل فہرست ہے۔ جس میں سابق وزیر خزاجہ رشی سوناک اور سابق وزیر صحت ساجد جاوید شامل ہیں۔ ان دونوں وزیروں کے استعفی دینے کے بعد ہی دیگر وزیروں اور اراکین کے استعفی دینے کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا جس کے نتیجے میں وزیر اعظم جانسن کو مستعفی ہونا پڑا۔
وزیر خارجہ لز ٹرس اور سوناک کے جانشین ناظم زہاوی بھی جانسن کے جانشین بننے کی دوڑ میں شامل ہیں۔ وزیر داخلہ پریتی پٹیل کے بارے میں اطلاع ہے کہ وہ فی الحال یہ فیصلہ نہیں کرسکی ہیں کہ آیا اس دوڑ میں شامل ہوں یا نہ ہوں؟
سوناک اس دوڑ میں سب سے آگے سمجھے جارہے ہیں۔ وزیر خزانہ کے طور پر ان کے بعض اقدامات کو سراہا گیا ہے اور یہ کہا جارہا ہے کہ اگر وہ وزیر اعظم بنتے ہیں تو اقتصادی لحاظ سے برطانیہ کے لیے سود مند رہے گا۔
تجزیہ کاروں کا تاہم کہنا ہے کہ قیادت کی دوڑ میں خواہ جو کوئی بھی کامیاب ہو اسے بہت سارے چیلنجز کا سامنا کرنا ہوگا۔ برطانیہ کی معیشت اس وقت افراط زر کی تیزی سے بڑھتی ہوئی شرح، بڑھتے ہوئے قرضے، کم ترقی جیسے مسائل سے دوچار ہے۔ برطانیہ کے عوام کو گزشتہ کئی دہائیوں میں پہلی مرتبہ مالی لحاظ سے کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ یوکرین کی جنگ کے سبب ایندھن کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے مہنگائی میں مزید اضافہ کردیا ہے۔
ج ا/ ص ز (روئٹرز، اے پی)
.