ہم حکومت کرتے رہیں گے، بورس جانسن
7 جون 2022’’پارٹی گیٹ‘‘ تنازع پراستعفٰی دینے کے لیے سخت دباؤ کے شکار بورس جانسن نے پیر کے روزعدم اعتماد کی تحریک میں 59 فیصد ووٹ حاصل کیے جو ان کی پیشرو تھریسا مے سے کم ہیں۔ تھریسا مے کو سن 2018 میں اسی طرح عدم اعتماد کی تحریک کا سامنا کرنا پڑا تھا، وہ اس میں کامیاب تو ہوگئی تھیں لیکن چھ ماہ بعد انہوں نے اپنے عہدے سے استعفٰی دے دیا تھا۔
جانسن نے عدم اعتماد کی تحریک ناکام ہوجانے کے بعد نامہ نگاروں سے بات چیت کرتے ہوئے اسے ''فیصلہ کن‘‘ عمل قرار دیا۔ انہوں نے کہا ''میں سمجھتا ہوں کہ یہ بہت اچھا، مثبت، حتمی، فیصلہ کن نتیجہ ہے، جس کی وجہ سے ہم آگے بڑھنے، متحد ہونے اور کام کرنے پر توجہ مرکوز کرنے کے قابل ہوئے ہیں۔ اور ہم بالکل یہی کرنے جا رہے ہیں۔‘‘
بورس جانسن کے مستقبل پر سوالیہ نشان
عدم اعتماد کی تحریک کے دوران حکمراں جماعت کنزرو یٹیو پارٹی کے ایوان میں موجود 359 اراکین میں سے211 نے بورس جانسن کے حق میں ووٹ دیا لیکن حزب اختلاف سمیت انہیں اپنی ہی پارٹی کے 148ممبران کی ناراضگی کا سامنا ہے۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹیڈ پریس کے مطابق بورس جانسن کرسی بچانے میں تو کامیاب رہے لیکن اس بحران کے بعد وہ ایک کمزور وزیر اعظم کے طور پر سامنے آئے ہیں اور ان کے مستقبل کے بارے میں سوالات کھڑے ہوگئے ہیں۔
اپنے خلاف اسکینڈلز پر توجہ نہ دینے والے جانسن حالیہ مہینوں میں ان کے اور ان کے قریبی افراد کے خلاف کورونا وائرس کے لاک ڈاؤن کے دوران منعقد کی جانے والی پارٹیوں میں شرکت کی خبر سامنے آنے کے بعد سے سیاسی طور پر مشکلات کا شکار ہیں۔
برطانوی خبررساں ادارے روئٹرز کے مطابق بورس جانسن اور ان کے عملے نے لندن میں اس وقت دفتر میں ایک پارٹی میں شراب نوشی کی تھی جب برطانیہ میں کورونا کی وبا کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے سخت لاک ڈاؤن تھا۔
اراکین پارلیمان کا ردعمل
برطانوی وزیر خزانہ رشی سوناک سمیت حکمراں جماعت کے متعدد اراکین نے تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کا خیر مقدم کیا۔
رشی سوناک نے ٹوئٹر پر ایک پوسٹ میں کہا، ''کل سے ہم ملک کی معیشت کی ترقی اورعوامی خدمات کو بہتر بنانے کے لیے اپنا کام پھر سے شروع کردیں گے۔‘‘
تاہم پارٹی کے اندر بڑی تعداد میں اراکین کی بغاوت سے پتہ چلتا ہے کہ بورس جانسن حکومت پر عوام کا اعتماد کم ہوا ہے۔ اپوزیشن لیڈر کیئر اسٹریمر نے کہا، ''نتیجہ تو پہلے سے ہی معلوم تھا۔ لیکن کنزرویٹو ارکان میں واضح تقسیم پائی جاتی ہے اور مسائل کے حل کے لیے ان کے پاس کوئی منصوبہ نہیں ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ حکمراں جماعت کے اراکین نے برطانوی عوام کو نظر انداز کیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا،''حالیہ مہینوں میں ہم نے جو فریب دیکھا اس کو مل کر ختم کریں گے۔ ہم ایک بار پھر اپنے ملک کو مقدم رکھیں گے، اس تھکی ہوئی حکومت سے چھٹکارا حاصل کریں گے اور برطانیہ کو دوبارہ پٹری پر لائیں گے۔‘‘
دوسری طرف بورس جانسن کا کہنا تھا،''ہمارے پاس ایک بہت بڑا ایجنڈا ہے۔ اب ہمیں ایک حکومت اور ایک جماعت کے طورپر متحد ہونے کی ضرورت ہے، ہم حکومت کرتے رہیں گے۔‘‘
ج ا/ک م (اے پی، روئٹرز، اے ایف پی)