’برطانیہ یورپی یونین سے الگ ہو جائے گا‘، ڈونلڈ ٹرمپ
24 مارچ 2016لندن سے نیوز ایجنسی روئٹرز کی ایک رپورٹ کے مطابق جمعرات چوبیس مارچ کو ٹرمپ کا ایک انٹرویو آئی ٹی وی چینل سے نشر ہوا ہے، جس میں انہوں نے کہا ہے: ’’مہاجرت کے حوالے سے جو عجیب و غریب صورتِ حال دیکھنےمیں آ رہی ہے، جس طرح سے لوگ ہر طرف سے آتے ہی چلے جا رہے ہیں، میرا خیال یہ ہے کہ برطانیہ بالآخر یورپی یونین سے الگ ہو جائے گا۔‘‘
رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق برطانوی عوام یورپی یونین کی رکنیت کے حوالے سے منقسم ہیں، تقریباً بیس فیصد رائے دہندگان ابھی تک یونین میں شامل رہنے یا نہ رہنے کے حوالے سے کسی فیصلے پر نہیں پہنچے جبکہ رائے دہندگان کے خدشات میں مہاجرت کا موضوع سرِ فہرست ہے۔
ٹرمپ کی میکسیکو کی سرحد کے ساتھ ساتھ ایک دیوار تعمیر کرنے یا پھر مسلمانوں کے ریاست ہائے متحدہ امریکا میں داخل ہونے پر پابندی جیسی تجاویز یورپ کے رائے دہندگان کو حیران پریشان کر چکی ہیں تاہم اپنے اس انٹرویو میں ٹرمپ نے کہا کہ وہ برطانوی ریفرنڈم میں ہرگز کسی ایک یا دوسری پوزیشن کے حق میں رائے نہیں دے رہے۔
دوسری جانب ٹرمپ کی رائے امریکی صدر باراک اوباما کے اُس موقف کے بالکل برعکس ہے، جس میں اُنہوں نے یہ کہا ہے کہ برطانیہ کو اپنے عالمگیر اثر و رسوخ کو برقرار رکھنے کے لیے اس اٹھائیس رکنی بلاک میں شامل رہنا چاہیے۔ اوباما آئندہ مہینے برطانیہ کا دورہ کرنے والے ہیں۔
برطانیہ کے حلیف ممالک کے مطابق یورپی یونین سے برطانیہ کا اخراج ایک ایسی مغربی دنیا کو کمزور کر دے گا، جسے شام اور عراق میں مسلمانوں کی انتہا پسندی کے ساتھ ساتھ بقول وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون روسی صدر ولادیمیر پوٹن کی جانب سے بھی بڑھتی جارحیت کا سامنا ہے۔
آئی ٹی وی نے ٹرمپ کے ساتھ اس انٹرویو کی پہلی جھلکیاں بدھ کے روز دکھائی تھیں، جن میں ٹرمپ نے یہ کہا تھا کہ انتہا پسندوں کی مشتبہ سرگرمیوں سے حکام کو آگاہ کرنے کے سلسلے میں مسلمان جو کچھ کر رہے ہیں، وہ ناکافی ہے۔ اس موقف کو برطانوی وزیر داخلہ نے تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
جب سے فرانس اور جرمنی دوسری عالمی جنگ کی تباہ کاریوں کے اعادے کو روکنے کے لیے ایک دوسرے کے قریب آئے ہیں، تب سے برطانیہ اس حوالے سے منقسم ہے کہ یورپی یونین میں اُس کی جگہ کہاں بنتی ہے۔ برطانیہ اس بلاک کا رکن تو بن گیا لیکن وہ ہمیشہ سے ہچکچاہٹ کا شکار رہا ہے، مثلاً نہ صرف یہ کہ برطانیہ نے پاؤنڈ چھوڑ کر مشترکہ یورپی کرنسی یورو کو نہیں اپنایا بلکہ وہ شینگن زون میں بھی شامل نہیں ہوا۔
کچھ برطانوی ووٹر پہلے ہی مہاجرین کی بڑھتی ہوئی تعداد کے باعث یورپی یونین سے برطانیہ کے اخراج کے حق میں ہیں۔ امکان ہے کہ پیرس اور پھر اب برسلز میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں سے بھی اس طرح کے ووٹروں کے موقف کو تقویت ملے گی۔ یورپی یونین میں برطانیہ کی رکنیت کے مخالفین جیسے کہ یُو کے انڈیپنڈنس پارٹی کے نائجل فیرج کا خیال ہے کہ یونین سے الگ ہو کر برطانیہ زیادہ خوشحال رہے گا اور مہاجرت کو زیادہ مؤثر طور پر روک سکے گا۔