برف پگھلنے لگی، امریکی مندوب شمالی کوریا میں
24 مئی 2011منگل کے روز سے امریکی مندوب برائے انسانی حقوق رابرٹ کنگ پانچ رکنی وفد کی سربراہی کرتے ہوئے شمالی کوریا کا دورہ کر رہے ہیں۔ اس دورے کا مقصد جنوبی کوریا کے لیے غذائی امداد کی دوبارہ بحالی بتایا جاتا ہے۔ واشنگٹن حکومت کے اس اقدام پر جنوبی کوریا اور چند امریکی سینیٹرز کی طرف سے سوالات بھی اٹھائے جا رہے ہیں۔
آخری مرتبہ دسمبر 2009 ء میں امریکی خصوصی مندوب برائے شمالی کوریا اسٹیفن بوس ورتھ نے پیونگ یانگ کا دورہ کیا تھا۔ واشنگٹن حکومت کو شمالی کوریا کی غذائی امداد دوبارہ بحال کرنے کے لیے اقوام متحدہ کی طرف سے دباؤ کا سامنا ہے۔ رواں برس اقوام متحدہ کی طرف سے ایک رپورٹ جاری کی گئی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ شمالی کوریا کے تقریبا چھ ملین افراد کو غذائی قلت کا سامنا ہے اور ان کی فوری طور پر مدد کی جائے۔
واشنگٹن حکومت نے زور دے کر کہا ہے کہ کنگ کے دورے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ امداد فوری طور پر بحال کر دی جائے گی۔ شمالی کوریا کے امور کے ماہر Scott Snyder کا کہنا ہے کہ پیونگ یانگ حکومت غذائی امداد کی دوبارہ بحالی کو اوباما حکومت کی طرف سے ایک مثبت اشارے کے طور پر دیکھ سکتی ہے۔ ان کی نظر میں شمالی کوریا کے ساتھ ایٹمی تخفیف اسلحہ مذاکرات کا دوبارہ آغاز بھی ممکن ہے۔
گزشتہ ماہ سابق امریکی صدر جمی کارٹر نے بھی پیونگ یانگ کا نجی دورہ کیا تھا۔ اس دورے کے دوران جمی کارٹر اور شمالی کوریا کی حکومت کے مابین غذا کی قلت پر بھی بات چیت کی گئی تھی۔ کارٹر کے دورے کا مقصد شمالی کوریا کو اس کے جوہری پروگرام کے حوالے سے مذاکرات کی میز پر لانا بتایا گیا تھا۔
شمالی کوریا کے جوہری پروگرام کے حوالے سے چھ ممالک پر مشتمل ایک گروپ کے مذاکرات دسمبر دو ہزار آٹھ سے تعطل کا شکار ہیں۔ شمالی کوریا نے ان مذاکرات کا بائیکاٹ کر رکھا ہے۔ امریکہ کی اب کوشش ہے کہ پیونگ یانگ کو مذاکرات پر دوبارہ آمادہ کیا جا سکے۔
رپورٹ: امتیاز احمد
ادارت: عاطف بلوچ