بلیک بیری پر اب سعودی عرب میں بھی پابندی
4 اگست 2010سعودی عرب کے اطلاعاتی اور مواصلاتی ٹیکنالوجی کے کمیشن (CITC) کی جانب سے یہ اعلان منگل کی شب کیا گیا۔ CITC کے مطابق یہ فیصلہ ریاستی سلامتی کے پیش نظر کیا گیا ہے۔ مزید یہ کہ بلیک بیری کے ذریعے معلومات کا تبادلہ ملکی قوانین سے مطابقت نہیں رکھتا۔
دوسری طرف بلیک بیری تیار کرنے والی کینیڈا کی کمپنی ریسرچ ان موشن RIM نے اعلان کیا ہے کہ سکیورٹی خدشات کے حوالے سے بھارتی حکومت کے ساتھ جاری تنازعہ جلد ہی حل کر لیا جائے گا۔ تاہم اس کمپنی نے یہ بات زور دے کر کہی ہے کہ بھارتی حکام کو بلیک بیری کے ذریعے بھیجے جانے والے SMS پیغامات اور دیگر انٹرنیٹ معلومات تک رسائی نہیں دی جائے گی۔ RIM کے ایک ترجمان سچیت گائکواڈ نے اس سلسلے میں میڈیا رپورٹوں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی حکومت کے ساتھ اس مسئلے کے قابل قبول حل کے لئے بات چیت جاری ہے تاہم ’’بلیک بیری صارفین کی سکیورٹی پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔‘‘
اس سے قبل متحدہ عرب امارات بھی 11 اکتوبر سے بلیک بیری کی سروسز معطل کرنے کا اعلان کر چکا ہے۔ UAE کی ٹیلی کیمیونیکیشن اتھارٹی TRA کے مطابق بلیک بیری فون کے ذریعے بھیجا جانے والا تمام تر ڈیٹا فی الفور بیرون ملک چلا جاتا ہے، جہاں اس ڈیٹا کو ایک غیر ملکی تجارتی کمپنی کنٹرول کرتی ہے۔ اس ڈیٹا میں ایس ایم ایس پیغامات اور انٹرنیٹ کا استعمال بھی شامل ہے۔ چونکہ TRA کواس ڈیٹا تک کسی قسم کی رسائی حاصل نہیں ہوتی، لہٰذا اس کے خیال میں یہ بات ملکی سلامتی کے لئے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔
متحدہ عرب امارات نے اس فیصلے سے ایک ہفتہ قبل اعتراض کیا تھا کہ بلیک بیری کو ایسے مقاصد کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے، جو ملکی سلامتی کے لئے خطرناک ہوسکتے ہیں۔ تاہم میڈیا کی آزادی پر نظر رکھنے والی تنظیم ’رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز‘ کا کہنا ہے کہ متحدہ عرب امارات کی حکومت بلیک بیری سروسز خاص طور پر ایس ایم ایس سروس کو سینسرشپ اور کڑی نگرانی سے متعلق اپنے مقاصد کے حصول میں رکاوٹ سمجھتی ہے۔ متحدہ عرب امارات میں بلیک بیری صارفین کی تعداد پانچ لاکھ کے قریب ہے۔
بلیک بیری سروسز پر بحرین حکومت کی طرف سے بھی رواں برس اپریل میں اعتراض اٹھایا گیا تھا۔
رپورٹ: افسر اعوان
ادارت: مقبول ملک