بنکاک میں جھڑپیں، مزید آٹھ افراد ہلاک
16 مئی 2010تھائی وزیراعظم ابھیسیت ویجاجیوا نے اپنے تازہ بیان میں کہا ہے کہ ریڈشرٹس کے خلاف فوجی آپریشن کے علاوہ کوئی اور آپشن نہیں بچا اور اب آپریشن کے ذریعے ہی بنکاک کو مظاہرین سے خالی کرایا جائے گا۔ انہوں نے سرکاری ٹیلی ویژن پر اپنے ہفتہ وار خطاب میں واضح طور پرکہا کہ ریڈشرٹس میں شامل چند عناصر بات چیت کے ساتھ مسائل حل کرنے کے بجائے محاذآرائی چاہتے ہیں اور ایسی صورتحال میں صرف آپریشن کا راستہ ہی باقی بچتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آپریشن میں کم از کم جانی نقصان کی کوشش کی جائے گی۔
گزشتہ دو روز سے بنکاک شہر کی سڑکوں پر سیکیورٹی فورسز اور ریڈشرٹ مظاہرین کے درمیان جھڑپوں میں شدت دیکھی جا رہی ہے۔ جھڑپوں میں شدت اس وقت آئی، جب وزیراعظم ابھیسیت ویجا جیوا نے اپنے اس اعلان کو منسوخ کر دیا، جس میں رواں برس نومبر میں قبل از وقت انتخابات کا وعدہ کیا گیا تھا۔ وزیراعظم نے کہا کہ اس وعدے کے بعد مظاہرین کی جانب سے نئے نئے مطالبات سامنے آ رہے ہیں اورحکومتی اعلان کے باوجود وہ دارالحکومت خالی نہیں کر رہے۔
بنکاک میں متعدد مقامات پر فوج کی جانب سے مظاہرین پر براہ راست فائرنگ کے واقعات بھی سامنے آئے ہیں۔ فوجی اہلکاروں پر مظاہرین کی طرف سے خودساختہ بم حملوں اور پتھراؤ کے بعد سیکیورٹی فورسز نے ان پر آنسو گیس کے شیل بھی پھینکے اور فائرنگ بھی کی۔ اب تک حکومتی موقف یہی رہا ہے کہ سیکیورٹی فورسز کی جانب سے مظاہرین پر فائرنگ ذاتی دفاع میں کی گئی تاہم وزیراعظم کے اس تازہ بیان کے بعد یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ فوج کو صاف ہدایات دی جا چکی ہیں کہ وہ شہر کو ہر قیمت پر خالی کرائیں۔
وزیر اعظم ابھیسیت ویجا جیوا نے اپنے بیان میں کہا کہ مظاہرین کے اس طرزعمل سے ملکی سلامتی کو خطرات لاحق ہو گئے ہیں اور معیشت پر کاری ضرب پڑی ہے۔
رواں برس مارچ سے ریڈشرٹ مظاہرین دارالحکومت بنکاک میں جمع ہیں اور اب تک ہونے والی جھڑپوں کے مختلف واقعات میں مجموعی طور پر 50 سے زائد افراد ہلاک جبکہ کم از کم 16سو زخمی ہو چکے ہیں۔
مظاہرین کے ایک رہنما جتوپن پروپن نے ایک بین الاقوامی خبررساں ادارے سے بات چیت میں کہا ہے کہ موجودہ صورتحال واضح طور پر خانہ جنگی کی سی ہے اور کوئی نہیں جانتا کہ اس کا انجام کیا ہونے والا ہے۔
حکام کے مطابق مظاہرین کی جانب سے جلتے ٹائروں کو فوجی بیرکوں کی جانب رُڑکانے اور ہیلی کاپٹروں پر آتش گیر مواد سے حملوں کے بعد بنکاک شہر میں فوجی آپریشن کا راستہ چنا گیا ہے۔ فوجی کی جانب سے مظاہرین کو خبردار کیا گیا ہے کہ وہ مرکز شہر میں مظاہرین کی بڑی ریلی کے خلاف بھرپور قوت استعمال کرنے والے ہیں تاہم فی الحال یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ حکومت یہ آپریشن کب شروع کرنے والی ہے۔
فوجی ترجمانSunsern Kaewkumnerd نے کہا ہے کہ فورسز مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے ہونے والے ممکنہ آپریشن کی حکمت عملی میں مصروف ہیں۔
’’اگر مظاہرین منتشر نہیں ہوتے تو ان کے خلاف کریک ڈاؤن لازمی طور پر ہو گا۔ مگر حکام اس آپریشن کی حکمت عملی طے کر رہے ہیں ورنہ جانی نقصان بہت زیادہ ہو سکتا ہے۔‘‘
گزشتہ دو ماہ سے ملک کے دوردراز شہروں سے دارالحکومت پہنچنے والے مظاہرین حکومت سے مستعفی ہونے اور قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
رپورٹ : عاطف توقیر
ادارت : عدنان اسحاق