بنگلہ دیشی طلبہ نے سول نافرمانی کی تحریک کا اعلان کر دیا
3 اگست 2024گزشتہ ماہ بنگلہ دیش میں سول سروس ملازمتوں کے کوٹے کے خلاف احتجاج شروع ہوا تو وزیر اعظم شیخ حسینہ کی حکومت نے ان مظاہرین سے آہنی ہاتھوں کے ساتھ نمٹنے کی کوشش کی۔ ان مظاہروں کی وجہ سے شیخ حسینہ کے 15 سالہ دور حکومت کی بدترین بدامنی پیدا ہوئی اور 200 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے۔
ان احتجاجی مظاہروں کے بعد کوٹہ سسٹم میں تبدیلی تو کی گئی ہے لیکن طلبہ تنظیمیں اب ہلاک ہونے والے مظاہرین کی وجہ سے حکومت مخالف مظاہرے جاری رکھے ہوئے ہیں۔
اس تناظر میں گزشتہ روز جمعے کی نماز کے بعد بھی لوگ بڑی تعداد میں سڑکوں پر نکل آئے تھے جبکہ آج بروز ہفتہ بھی طلبہ نے ایک بڑی احتجاجی ریلی نکالی۔ بنگلہ دیش میں ابتدائی احتجاجی مظاہرے کرنے والی تنظیم ''اسٹوڈنٹس اگینسٹ ڈسکریمینیشن‘‘ نے اپنے ہم وطنوں پر زور دیا ہے کہ وہ کل بروز اتوار سے مکمل عدم تعاون کی تحریک شروع کریں۔
طلبہ گروپ کے لیڈر آصف محمود نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا، ''اس میں ٹیکسوں اور یوٹیلیٹی بلوں کی عدم ادائیگی، سرکاری ملازمین کی ہڑتالیں اور بینکوں کے ذریعے بیرون ملک سے ترسیلات زر کی ادائیگی کو روکنا شامل ہے۔‘‘
طلبہ گزشتہ ماہ کے تشدد کی وجہ سے شیخ حسینہ سے عوامی معافی کا مطالبہ کر رہے ہیں جبکہ وہ ان کے کئی وزرا کی برطرفی بھی چاہتے ہیں۔ طلبہ نے یہ بھی اصرار کیا ہے کہ حکومت ملک بھر میں اسکولوں اور یونیورسٹیوں کو دوبارہ کھولے۔ یہ سب بدامنی کے عروج پر بند کر دیے گئے تھے۔ ہفتے کے روز ہونے والے مظاہروں میں شیخ حسینہ سے وزارت عظمیٰ چھوڑنے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔
بنگلہ دیش میں مظاہروں کے بعد جماعت اسلامی پر پابندی عائد
ہفتے کے روز دارالحکومت ڈھاکہ کے اطراف میں ہونے والے ایک مظاہرے میں شریک 20 سالہ نجم یاسمین کا کہنا تھا، ''اسے (شیخ حسینہ) کو اب جانا چاہیے کیونکہ ہمیں اس آمرانہ حکومت کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ نجم یاسمین کا مزید کہنا تھا، ''کیا ہم نے اس لیے آزادی حاصل کی تھی کہ اپنے بھائیوں اور بہنوں کو اس حکومت کی گولیوں کا نشانہ بننے دیا جائے؟‘‘
تحریک سول نافرمانی کا پس منظر
بنگلہ دیش میں تحریک سول نافرمانی کا ایک خاص پس منظر بھی ہے۔ سن 1971 میں پاکستان سے آزادی کے وقت بھی بنگلہ دیش میں ''تاریخی سول نافرمانی کی تحریک‘‘ شروع کی گئی تھی۔
اُس وقت تحریک کی سربراہی وزیر اعظم شیخ حسینہ کے والد شیخ مجیب الرحمان نے کی تھی، جو ملک کی آزادی کے رہنما تھے۔ بنگلہ دیشی آج تک اس تحریک کو ظلم کے خلاف ایک قابل فخر جنگ کے ایک حصے کے طور پر یاد کرتے ہیں۔
کیا شیخ حسینہ اقتدار چھوڑ دیں گی؟
الینوائے اسٹیٹ یونیورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر علی ریاض کہتے ہیں، ''اب صورتحال بدل چکی ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ''حکومت کی بنیادیں ہل گئی ہیں، ناقابل تسخیریت کی چمک دم توڑ گئی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ شیخ حسینہ حکومت چھوڑنے کے لیے تیار ہیں یا آخری دم تک لڑیں گی؟‘‘
دریں اثنا شیخ حسینہ کے پریس سیکریٹری نعیم الاسلام خان نے بتایا ہے کہ وزیر اعظم نے ہفتے کے روز طلبہ کے ساتھ ان کے مطالبات کو حل کرنے کے لیے ''غیر مشروط بات چیت‘‘ کی پیش کش کی ہے۔ نعیم الاسلام خان کے مطابق، ''وہ ان کے ساتھ بیٹھنے کے لیے تیار ہیں۔ وہ مزید تنازع نہیں چاہتی ہیں۔‘‘
تاہم طلبہ گروپ کے لیڈر آصف محمود نے بتایا ہے کہ انہوں نے وزیر اعظم کی اس پیش کش کو مسترد کر دیا ہے۔
76 سالہ شیخ حسینہ سن 2009 سے بنگلہ دیش پر حکومت کر رہی ہیں اور انہوں نے جنوری میں مسلسل چوتھے انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی۔ تاہم انہیں کسی بڑی اپوزیشن کا سامنا نہیں تھا۔
ا ا / ش ر (اے ایف پی، روئٹرز)