1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بنگلہ دیش: حکومت مخالف مواد روکنے کی ’سرکاری‘ کوششیں تیز

28 دسمبر 2018

بنگلہ دیشی حکام نے عام انتخابات سے قبل ملک بھر میں انٹرنیٹ سروس کو محدود اور بہت سست کر دیا ہے۔ اس کا مقصد اتوار کے انتخابات سے پہلے ’پروپیگنڈا‘ روکنا بتایا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/3AivE
Bangladesch Wahlkampf in Dhaka
بی این پی کی ایک امیدوار ڈھاکا میں اپنی انتخابی مہم کے دورانتصویر: bdnews24.com

بنگلہ دیش میں انتخابی مہم کے اختتام پر پرتشدد جھڑپیں بھی ہوئیں اور ملک بھر میں انٹرنیٹ کی رفتار بھی سست کر دی گئی ہے۔ بنگلہ دیش ٹیلی کمیونیکیشنز ریگولیٹری کمیشن (بی ٹی آر سی) کا جمعے کے روز ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ملک بھر میں انٹرنیٹ کی رفتار سست کرنے کے ساتھ ساتھ تھری جی اور فور جی سروسز کو کئی گھنٹوں کے لیے معطل کر دیا گیا ہے۔

اس ادارے کے ایک عہدیدار کا نیوز ایجنسی اے ایف پی کے ساتھ گفتگو میں اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہنا تھا، ’’ہم نے جمعرات اور جمعے کی درمیانی شب ٹیلیکوم آپریٹرز سے کہا تھا کہ عارضی طور پر تھری جی اور فور جی سروسز معطل کر دیں۔ ہم نے یہ قدم انٹرنیٹ پر جاری پروپیگنڈے اور گمراہ کن مواد کی تشہیر روکنے کے لیے اٹھایا ہے۔‘‘

اس عہدیدار کا مزید کہنا تھا کہ دس گھنٹوں بعد ہائی اسپیڈ انٹرنیٹ سروس جمعے کو کچھ دیر کے لیے بحال کی گئی ہے لیکن شام تک اسے دوبارہ معطل کر دیا جائے گا۔

Bangladesch Wahlkampf in Dhaka
بی این پی کے امیدواروں پر حملے بھی کیے گئے تاکہ وہ اپنی انتخابی مہم نہ چلا سکیں۔تصویر: bdnews24.com

بنگلہ دیش میں پارلیمانی انتخابات کا انعقاد اتوار کے روز ہوگا، جن کے بعد وزیر اعظم شیخ حسینہ ریکارڈ چوتھی مرتبہ اقتدار میں آنا چاہتی ہیں۔ ان کے مدمقابل بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کا سیاسی اتحاد ہے۔ اس اتحاد کا حکومت پر الزام عائد کرتے ہوئے کہنا ہے کہ ملک بھر میں کریک ڈاؤن کرتے ہوئے اس کے ہزاروں کارکنوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

بی این پی کی خاتون لیڈر خالدہ ضیاء کو رواں برس اقتدار کا ناجائز فائدہ اٹھانے کے الزام میں سترہ برس قید کی سزا سنا دی گئی تھی جبکہ ان کی پارٹی کے مطابق بی این پی کے امیدواروں پر حملے بھی کیے گئے تاکہ وہ اپنی انتخابی مہم نہ چلا سکیں۔ مرکزی دھارے کے ذرائع ابلاغ بھی بی این پی کو بہت کم کوریج دے رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ یہ پارٹی سوشل میڈیا پر اپنی انتخابی مہم چلا رہی ہے۔

رواں ماہ کے آغاز پر بنگلہ دیش ٹیلی کمیونیکیشنز ریگولیٹری کمیشن نے بی این پی کی ویب سائٹ سمیت ایسی 53 نیوز ویب سائٹس کو بلاک کر دیا تھا، جو حکومت مخالف سیاسی اتحاد کی حامی تصور کی جاتی ہیں۔ اس حوالے سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ یہ ویب سائٹس ’غیرشائستہ‘ اور ’عناد پر مبنی‘ مواد پھیلا رہی تھیں۔

بنگلہ دیش میں انٹرنیٹ صارفین کی تعداد 92 ملین سے بھی زائد ہے اور حکومت ماضی میں بھی متعدد ویب سائٹس، سوشل میڈیا پیجز اور یوٹیوب ویڈیوز کو بلاک کر چکی ہے۔ اگست دو ہزار سولہ میں بھی ایسی 35 ویب سائٹس بند کر دی گئی تھیں، جو اپوزیشن کے حامی ملکی صارفین میں بہت مقبول تھیں۔

ا ا / م م (اے ایف پی)