بنگلہ دیش: خواتین کے لیے مساوی حقوق کے خلاف ہڑتال
4 اپریل 2011خواتین کے لیے مساوی حقوق کی حکومتی کوششوں کا مقصد ایک ایسا قانون منظور کروانا ہے، جس کے تحت اِس مسلم اکثریتی ملک میں ملکیت اور وراثت کے معاملات میں خواتین کو بھی مردوں کے برابر حقوق حاصل ہو جائیں۔
بنگلہ دیشی دارالحکومت سے موصولہ خبروں کے مطابق ڈھاکہ میں زیادہ تر دُکانیں، کاروباری مراکز اور تعلیمی ادارے بند ہیں جبکہ ڈھاکہ کے اندر اور آس پاس بڑی شاہراہوں پر ٹریفک نہ ہونے کے برابر ہے۔
ایک سینئر پولیس افسر نے بتایا کہ ڈھاکہ میں پولیس کے تقریباً دَس ہزار اہلکار تعینات کیے گئے ہیں۔ ڈھاکہ پولیس کمشنر بے نظیر احمد نے بتایا:’’کسی بھی قسم کے تشدد کو روکنے کے لیے سخت حفاظتی انتظامات کیے گئے ہیں۔ دارالحکومت میں کافی زیادہ سکیورٹی ہے۔ چند ایک ناخوشگوار واقعات سے قطعِ نظر حالات پُر امن ہیں۔‘‘
ایک مقامی پولیس چیف محمود الاسلام نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ اسلامی مذہبی مدرسوں کے سینکڑوں طلبہ نے اپنی مخصوص ٹوپیاں پہنے اور ہاتھوں میں لاٹھیاں اٹھائے ڈھاکہ کے محمد پور علاقے میں جلوس نکالا اور مجوزہ قانون کے خلاف نعرے لگائے۔
اتوار تین اپریل کو جنوب مغربی شہر جیسور میں ایک مذہبی مدرسے کا ایک طالبعلم اُس وقت ہلاک ہو گیا تھا، جب پولیس نے اُن تقریباً 500 مظاہرین پر گولی چلا دی، جو حکومت سے خواتین کے لیے مساوی حقوق کے سلسلے میں اپنی پالیسیاں ترک کرنے کے مطالبات کر رہے تھے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ اتوار کے اِن پُر تشدد واقعات کے دوران چھ پولیس اہلکاروں سمیت کم از کم ایک درجن افراد زخمی ہو گئے تھے۔ بتایا گیا ہے کہ لاٹھیوں سے کیے جانے والے حملوں کی زَد میں آ کر زخمی ہونے والے پولیس اہلکاروں میں سے تین کی حالت نازُک ہے۔
حکومت نے خواتین کے لیے مساوی حقوق کے سلسلے میں اپنی نئی پالیسی کا اعلان سات مارچ کو کیا تھا۔ تب سے کچھ اسلامی گروپ، جن کی قیادت شعلہ بیاں مذہبی رہنما اور سابقہ رکنِ پارلیمان مفتی فضل الحق امینی کر رہے ہیں، اِس پالیسی کو قرآن مجید سے متصادم قرار دیتے ہوئے اِس کے خلاف احتجاجی جلسے جلوسوں کا اہتمام کر رہے ہیں۔ یہ گروپ ’اسلامی قانون کے نفاذ کی کمیٹی‘ کے تحت یہ احتجاج جاری رکھے ہوئے ہیں۔
رپورٹ: امجد علی
ادارت: افسر اعوان