بنگلہ دیش سانحہ: سوشل میڈیا کے ذریعے حملہ آوروں کی شناخت
4 جولائی 2016دہشت گردوں نے بنگلہ دیشی دارالحکومت ڈھاکا میں ’ہولے آرٹیسن بیکری‘ نامی کیفے پر گزشتہ جمعے کی شب حملہ کیا تھا اور وہاں موجود بیس شہریوں کو ہلاک کرنے کے بعد باقی افراد کو یرغمال بنا لیا تھا۔ پولیس نے اگلی صبح ریستوراں پر دھاوا بول کر تیرہ یرغمالیوں کو، جن کی اکثریت بنگلہ دیشیوں پر مشتمل تھی، رہا کروا لیا تھا جبکہ چھ دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا گیا تھا۔ اس کارروائی کے دوران دو پولیس اہلکار بھی ہلاک ہو گئے تھے۔
جب ان حملہ آوروں کی تصاویر شائع ہوئیں تو سوشل میڈیا پر چند ایک حملہ آوروں کے دوستوں اور اہلِ خانہ نے اُنہیں شناخت کر لیا۔ بنگلہ دیشی دارالحکومت ڈھاکا کے ڈپٹی پولیس کمشنر مسعود الرحمان کے مطابق پولیس اب اس امر کی تصدیق کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ آیا سوشل میڈیا کے ذریعے ہونے والی یہ شناخت درست ہے۔
سوشل میڈیا نیٹ ورک فیس بُک پر پوسٹ کیے گئے پیغامات میں دوستوں نے کہا تھا کہ اُنہوں نے چھ میں سے تین حملہ آوروں کو شناخت کر لیا ہے۔ نیوز ایجنسی روئٹرز نے مسعود الرحمان کے حوالے سے بتایا کہ پولیس حملہ آوروں کی سوشل میڈیا پر موجود مبینہ تصاویر کا اُن کی لاشوں کے ساتھ موازنہ کرنے کے علاوہ اُن کے اہلِ خانہ سے بات چیت بھی کرے گی اور ڈی این اے ٹیسٹ بھی کروائے گی۔
دریں اثناء اس سانحے میں مرنے والوں کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کا عمل جاری ہے۔ نیوز ایجنسی ڈی پی اے کے مطابق وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد نےاس سانحے پر منائے جانے والے قومی سوگ کے دوسرے روز پیر چار جولائی کو ڈھاکا آرمی اسٹیڈیم میں جا کر مرنے والوں کے تابوتوں پر پھول چڑھائے۔
ٹی وی فوٹیج میں دکھایا گیا کہ کیسے خاتون وزیر اعظم اسٹیج پر کچھ دیر کے لیے خاموش کھڑی رہیں، جس کے بعد اُنہوں نے تابوتوں پر پھول رکھے۔ وزیر اعظم کے وہاں سے رخصت ہونے کے بعد وُزراء، سفارت کاروں اور سیاسی رہنماؤں کے ساتھ ساتھ مرنے والوں کے رشتے داروں اور دوستوں نے بھی میتوں کا آخری دیدار کیا۔
اس سانحے میں مرنے والے بیس ا فراد میں سے نو کا تعلق اٹلی سے، سات کا جاپان سے، ایک کا بھارت سے، دو کا بنگلہ دیش سے اور ایک کا ریاست ہائے متحدہ امریکا سے تھا۔
دہشت گرد ملیشیا ’اسلامک اسٹیٹ‘ اس واقعے کی ذمہ داری قبول کر چکی ہے تاہم بنگلہ دیشی حکومت بدستور یہ اصرار کر رہی ہے کہ اس واقعے کے پیچھے ملک کے اندر سرگرم انتہا پسند ملوث ہیں۔