بنگلہ دیش، مغربی ریٹیلرز کے لیے پر کشش ملک
13 مئی 2013نہایت اہمیت کی حامل اس انڈسٹری کو ساتھ ہی ملک میں بہت سے چیلنجز کا بھی سامنا ہے۔ گزشتہ ماہ دارالحکومت ڈھاکہ کے نواحی علاقے میں ایک گارمنٹ کمپلیکس کے منہدم ہونے سے سے کم از کم گیارہ سو افراد ہلاک ہو گئے۔ اس حادثے کی وجہ سے بنگلہ دیشی حکومت کو ملک کے اہم ترین اثاثے کو دوبارہ کھڑا کرنے کے لیے ایک چیلنج کا سامنا ہے۔
حکومتی کرپشن اور بے حسی کی وجہ سے بنگلہ دیش کی گارمنٹ انڈسٹری میں کام کرنے والوں کے لیے حالات بہت عرصے سے مخدوش چلے آ رہے ہیں۔ حال ہی میں رونما ہونے والے سانحے کی وجہ سے خریداروں اور انڈسٹری کے ایگزیکٹوز میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔
جو فریش، مینگو اور بینیٹن جیسی مشہور برانڈز کے، جن کے ملبوسات اور دستاویزات منہدم ہونے والی عمارت سے ملے ہیں، فیس بک پیجز خریداروں کے تنقیدی تبصروں سے بھرے پڑے ہیں۔ چند خریداروں نے خبردار کیا ہےکہ اب وہ ان برانڈز کی ملبوسات نہیں خریدیں گے۔
ریٹیلرز کے خلاف بھی سڑکوں پر مظاہرے کیے جا رہے ہیں۔ امریکا میں نیویارک، لاس اینجلس اور سیاٹل سمیت تقریباﹰ بارہ شہروں میں ٫گیپ‘ کے خلاف مظاہرے نکالے جا رہے ہیں۔ مظاہروں کے منتظمین کا کہنا ہے کہ وہ دیگر ریٹیلرز کے خلاف بھی مظاہرے کریں گے جو بنگلہ دیشی فیکٹریوں میں عالمی معیار کو اپنانے سے گریزاں ہیں۔
بنگلہ دیش میں کام کرنے والے مغربی برانڈز کےپاس اب دو ہی راستے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ بنگلہ دیش میں قائم فیکٹریوں میں کام کے حالات کو بہتر بنائیں یا پھر اس ملک کو چھوڑ کر کسی اور کم اجرت والے ملک کا رخ کریں۔ تاہم بہت سے ریٹیلرز نے بنگلہ دیش میں ہی ٹھہرنے کا فیصلہ کیا ہے اور وعدہ کیا ہے کہ وہ فیکٹریوں میں کام کے حالات بہتر بنانے کے لیے کام کریں گے۔
وال مارٹ اور سویڈش ریٹیلر ایچ اینڈ ایم نے کہا ہے کہ اُن کا بنگلہ دیش چھوڑنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ دیگر اہم ریٹیلرز دی چلڈرنز پلیس، مینگو، جے سی پینی، گیپ اور بینیٹن وغیرہ نے بھی کچھ ایسے ہی ارادے کا اظہار کیا ہے۔
تا ہم بعض ریٹیلرز کے لیے بنگلہ دیش گارمنٹ کے شعبے میں مزید سرمایہ کاری کے لیے محفوظ مقام نہیں رہا ہے۔ ٫دی والٹ ڈزنی کو‘ نے بنگلہ دیش میں اپنی برانڈ کی پیداوار روکنے کا اعلان کر دیا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ دوسری مغربی کمپنیاں بھی آہستہ آہستہ اور خاموشی سے بنگلہ دیش پر اپنا انحصار کم کرتی جائیں گی۔
امریکی درآمد کنندگان کی ایک ایسوسی ایشن کی صدر Julie Hughes نے کہا ہے کہ ہر کمپنی بنگلہ دیش میں تیار کی جانے والی ملبوسات کی پیداور میں کمی کرے گی۔ ’’ایسا آج نہیں ہو گا لیکن ایک سال کے بعد ہماری درآمدات میں کمی ہو گی۔‘‘
تاہم بنگلہ دیش میں ملبوسات تیار کرنے والے ریٹیلرز کے لیے جنوبی ایشیا کے اس ملک کو چھوڑنا اتنا آسان بھی نہیں ہو گا۔ دنیا میں کم اجرت والے ملکوں کی کمی نہیں ہے لیکن نئے ملک میں فیکٹریوں کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کے عمل میں کئی ماہ یا سال لگ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ اگر ریٹیلرز اپنے کاروبار کو دوسرے کم لاگت والے ممالک میں منتقل بھی کرتے ہیں تو پھر ان کو اپنی ساکھ برقرار رکھنے کے حوالے سے بھی خطرات کا سامنا رہے گا۔
ایک تجزیے کے مطابق، گارمنٹ تیار کرنے والے اہم ممالک میں بنگلہ دیش ایک ایسا ملک ہے جہاں پر برانڈز کو کام کے حالات کی وجہ سے شدید خطرات لاحق ہیں۔ لیکن جبری مشقت اور بچوں کی مزدوری کے حوالے سے بنگلہ دیش میں صورت حال دیگر کم ترقی پزیر ممالک سے بہتر ہے۔ برطانیہ کی فرم میپل کروفٹ کے ایک تجزیے کے مطابق، چین، پاکستان، انڈونیشیا اور بھارت کے مقابلے میں بنگلہ دیش کم پر خطر ملک ہے۔ ریٹیلرز کی بنگلہ دیش میں رہنے کی ایک اور اہم وجہ یہ بھی ہے کہ بنگلہ دیش کا شمار اُن چند ممالک میں ہوتا ہے جہاں پر کافی تعداد میں تجربہ کار ورکرز موجود ہیں۔ خام مال کی آسانی سے دستیابی کے علاوہ ملک کی سیاسی صورت حال بھی کافی مستحکم ہے۔
چین اور اٹلی کے بعد، بنگلہ دیش گارمنٹ انڈسٹری کا تیسرا بڑا برآمد کنندہ ہے۔ ملک میں پانچ ہزار فیکٹریاں ہیں جبکہ گارمنٹ ورکرز کی تعداد 36 لاکھ ہے۔ یہاں پر ورکروں کی اجرتیں دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں بہت کم ہیں۔ ایک اوسط درجے کے ورکر کی فی گھنٹہ اجرت 24 سینٹ ہے جبکہ کمبوڈیا میں ورکر کی کم از کم فی گھنٹہ اجرت 45 سینٹ اور پاکستان میں 52 سینٹ ہے۔
zh/aba(AP)