بنگلہ دیش میں ایک بُدھ راہب کا قتل
14 مئی 2016بنگلہ دیش میں ایک معمر بُدھ راہب کو زدو کوب کر کے ہلاک کر دیا گیا ہے اور اس کی خون میں لت پت لاش ہفتے کی صبح بدھوں کے ایک ٹیمپل سے برآمد ہوئی ہے۔
پولیس کے مطابق مسلم اکثریتی آبادی والے اس ملک بنگلہ دیش میں مذہبی اقلیتوں اور سیکولر کارکنوں کے قتل کے سلسلے کی یہ تازہ ترین کڑی ہے۔
کسی بھی گروپ نے اب تک اس قتل کے واقعے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے تاہم بنگلہ دیش کے دور دراز جنوب مشرقی بندر بن ضلع میں ہونے والے قتل کے اس واقعے کی مشابہت قتل کے حالیہ متعدد واقعات سے نظر آتی ہے، جس کے پیچھے مسلم عسکریت پسندوں کا ہاتھ رہ چُکا ہے۔
خبر رساں اے ایف پی کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے ضلع بندربن کے ڈپٹی پولیس چیف جسیم الدین کا کہنا تھا، ’’ہفتے کی صبح ایک مندر میں خون کے تالاب میں بُدھ راہب ماؤنگ شُو یُوچک کی لاش گاؤں کے رہنے والوں کو ملی۔ اس راہب کو زد و کوب کرکے ہلاک کیا گیا ہے۔‘‘
جسیم الدین کا مزید کہنا تھا کہ دارالحکومت ڈھاکا سے کوئی 350 کلو میٹر کے فاصلے پر چٹاگانگ ڈویژن کے علاقے بائیشری میں قائم بُدھ مندر سے ہفتے کی صبح برآمد ہونے والی لاش غالباً 75 سالہ بُدھ راہب کی ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس پر چار حملہ آوروں نے وار کیا تھا۔
جسیم الدین کے بقول، ’’ہمیں مندر کے اندر انسانی قدموں کے نشان ملے ہیں اور چار پانچ افراد مندر میں داخل ہوئے تھے۔‘‘
حالیہ سالوں کے دوران بنگلہ دیش میں درجنوں صوفیوں، شیعہ مسلمانوں، احمدیوں، ہندوؤں اور مسحیوں کے قتل میں مبینہ مسلم عسکریت پسندوں کے ملوث ہونے کا بتایا گیا ہے، جن کی طرف سے ان واقعات کی ذمہ داری بھی قبول کی جاتی رہی ہے۔
بنگلہ دیش میں فعال دہشت گرد گروپ ’اسلامک اسٹیٹ‘ اور القاعدہ کی ایک بنگلہ دیشی شاخ نے کہا ہے کہ کچھ عرصے سے ہونے والے دہشت گردانہ واقعات اور متعدد قتل میں وہ ملوث رہے ہیں جبکہ ڈھاکا کی سیکولر حکومت اس امر کی تردید کرتی رہی ہے کہ بنگلہ دیش میں ہونے والے ان پُر تشدد حملوں میں القاعدہ اور داعش کا ہاتھ ہے۔
حکومت کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش میں القاعدہ اور داعش موجود نہیں ہیں بلکہ اس مسلم اکثریتی معاشرے میں اندرون خانہ عسکریت پسند بننے والے عناصر قتل و غارت گری کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں۔
160 ملین کی آبادی پر مشتمل مسلم اکثریتی ملک بنگلہ دیش میں بُدھ مدت کے ماننے والے باشندوں کا تناسب صرف محض ایک فیصد بنتا ہے۔