بنگلہ دیش میں مجیب کے قاتلوں کو پھانسی
28 جنوری 2010 ڈھاکہ میں سپریم کورٹ اور بنگلہ دیشی صدر ضل الرحمان نے ملزمان کی جانب سے رحم کی درخواستیں بدھ کو مسترد کیں جس کے چند ہی گھنٹوں بعد دہائیوں سے مقید مجرم قرار پائے ان پانچوں افراد کو موت کی سزا دے دی گئی۔
بنگلہ دیش کے قیام کے بانی اور پہلے صدر شیخ مجیب الرحمان کے قتل میں ملوث پانچ سابق فوجی عہدیداروں کو پھانسی دے دی گئی ہے۔ ڈھاکہ میں سپریم کورٹ اور بنگلہ دیشی صدر ضل الرحمان نے ملزمان کی جانب سے رحم کی درخواستیں بدھ کو مسترد کیں، جس کے چند ہی گھنٹوں بعد، دہائیوں سے مقید مجرم قرار پائے ان پانچوں افراد کو موت کی سزا دے دی گئی۔
سن 1975ء یعنی مشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش بن جانے کے محض چار سال بعد ایک فوجی بغاوت میں مجیب الرحمٰن، ان کی اہلیہ اور تین بیٹوں کو ان کے گھر میں پندرہ دیگر افراد کے ہمراہ قتل کردیا گیا تھا۔ سن 1988ء میں ایک بنگلہ دیشی جج نے اپنے فیصلے میں مجیب کے قتل کیس کے سلسلے میں بیس ملزمان میں سے پندرہ کوسزائے موت سنائی۔ تین ملزمان کو بعد میں معاف کردیا گیا، ایک زمبابوے میں انتقال کرگیا جبکہ چھ دیگر فوجی افسران تاحال گرفتار نہیں کئے جاسکے ہیں۔
بنگلہ دیش کے بانی تصور کئے جانے والے مجیب کے قتل کے محرکات ابھی تک واضح نہیں ہیں، بعض حلقوں کا البتہ خیال ہے کہ سیاسی کشمکش کے دور میں بہت سوں کو مجیب کا ’’آمرانہ اور یک جماعتی طرز حکومت‘‘ پسند نہیں تھا۔
بیرون ملک ہونے کے سبب مجیب کی دو بیٹیاں بغاوت کے دوران سلامت رہیں، جن میں سے ایک بنگلہ دیش کی موجودہ وزیر اعظم شیخ حسینہ ہیں۔ شیخ مجیب کے قتل کے مقدمے کا آغاز سال 1996 میں شیخ حسینہ ہی کی وزارت عظمیٰ کے پہلے دور میں ہوا۔
قانونی پیچیدگیوں کے باعث مقدمہ تعطل کا شکار ہوا۔ پھر سال 2001ء میں جب بنگلہ دیش نیشلسٹ پارٹی BNP سے تعلق رکھنے والی سیاست دان خالدہ ضیاء وزیراعظم منتخب ہوئی، تو مجیب کے قتل سے متعلق مقدمے کی کارروائی روک دی گئی۔ گزشتہ سال ایک مرتبہ پھر شیخ حسینہ واجد کی جماعت عوامی لیگ نے اقتدار میں آتے ہی مقدمے کی کارروائی کا دوبارہ آغاز کیا۔ اس طرح مجیب کے قاتلوں کو بالآخر انجام تک پہنچا ہی دیا گیا۔
سزا پانے والوں میں میجر الہدیٰ، لیفٹننٹ کرنل محی الدین احمد، لیفٹننٹ کرنل سید فاروق الرحمان، لیفٹننٹ کرنل سلطان شہریار راشد خان اور آرمی لانسر اے کے محی الدین شامل ہیں۔ ڈھاکہ میں جیل انتظامیہ نے مجرم قرار پائے افراد کے اہل خانہ کو آخری ملاقات کے لئے بلایا تھا۔ ان ہی میں سے ایک، میجر الہدیٰ کی بہن نے اپنے بھائی کو ’’شہید‘‘ جبکہ عدالتی فیصلے کو ’’سراسر ناانصافی پر مبنی فیصلہ‘‘ قرار دیا۔
دوسری جانب حکومت کے حامی بنگلہ دیش کے سپریم کورٹ کے فیصلے کواپنی جیت سے تعبیر کررہے ہیں۔ عدالت کے باہر عوامی لیگ کے کارکنوں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی، جو یہ نعرے لگارہی تھی: ’’غداروں کی نعشیں بنگلہ دیش میں نہ دفنائی جائیں۔‘‘
وزیراعظم حسینہ واجد اپنی حریف خالدہ ضیاء کے مرحوم شوہر اور سابق صدر ضیاء الرحمان پر بھی اپنے والد شیخ مجیب کے قتل میں ملوث ہونے کا الزام عائد کرتی رہی ہیں۔ ضیاء الرحمان، مجیب دور میں نائب آرمی چیف رہے اور مجیب کے قتل کے بعد ملک کے صدر بنے۔ شیخ مجیب کے قتل کے بعد قائم حکومت نے فوجی بغاوت میں ملوث بیشتر افراد کو عام معافی دیتے ہوئے سفارتی فرائض انجام دینے کے لئے بیرون ملک روانہ کردیا تھا۔ بعض مؤرخین اور سیاسی تجزیہ نگاروں کے بقول اُس وقت کے بنگالی حکمرانوں کے اس فیصلے کا مقصد مجیب مخالف قوتوں کے مابین اتحاد قائم کرنا تھا۔
شیخ مجیب کے قاتلوں کو پھانسی دینے کا عدالتی فیصلہ بنگہ دیشی سیاسی منظر نامے پر گہرے اثرات مرتب کرسکتا ہے۔ خدشہ ہے کہ حزب اختلاف بنگلہ دیش نیشلسٹ پارٹی اور ان کی حلیف جماعت اسلامی کے کارکن عدالتی فیصلے کے خلاف پر تشدد احتجاج کرسکتے ہیں۔ مجیب پندرہ اگست 1975ءکو قتل ہوئے تھے۔
رپورٹ: شادی خان سیف
ادارت: گوہر نذیر گیلانی