بنگلہ دیش: ہم جنس پرستوں کے حقوق کے علم بردار کا بہیمانہ قتل
25 اپریل 2016ڈھاکا سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق پولیس افسر ریاض الاسلام نے عینی شاہدوں کے حوالے سے بتایا کہ کم از کم پانچ افراد بنگلہ دیشی دارالحکومت میں ہم جنس پرستوں کے حقوق کے علمبردار جریدے کے ایڈیٹر سلہاز منان کی اپارٹمنٹ بلڈنگ میں داخل ہوئے۔ ان افراد نے ایسی یونیفارمز پہنی ہوئی تھیں، جن سے لگتا تھا کہ وہ کسی کوریئر سروس کے لیے کام کرتے ہیں۔
ان نامعلوم حملہ آوروں نے سلہاز منان کے ساتھ ساتھ اُس کے ایک دوست تنوئے موجمدار کو بھی ہلاک کر دیا اور ساتھ ساتھ سکیورٹی گارڈز پر بھی چاقوؤں سے حملے کیے۔ ڈھاکا میں امریکی سفارت خانے کی جانب سے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ منان امریکی ایمبیسی کا ملازم تھا۔
پرائیویٹ براڈکاسٹر سوموئے ٹیلی وژن نے بتایا ہے کہ منان ’رُوپ بان‘ نامی جریدے کا مدیر تھا۔ یہ بنگلہ دیش کا پہلا جریدہ ہے، جو ہم جنس پرست مرد و زن اور مخنث افراد کے حقوق کے لیے آواز بلند کرتا ہے۔
اس سے پہلے 2015ء میں دو بلاگرز نیلوئے نیل اور ابیجیت روئے کو اسی انداز میں مشتبہ مسلمان انتہا پسندوں کی جانب سے قتل کیا جا چکا ہے، جنہوں نے مکتومونا ویب سائٹ پر اس جریدے کو سراہا تھا۔
جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کے مطابق کالابنگن پولیس اسٹیشن میں ڈیوٹی پر موجود ایک پولیس افسر حبیب الرحمان نے رپورٹرز کو بتایا کہ منان سابق بنگلہ دیشی وزیر خارجہ دیپو مونی کا کزن تھا۔ حبیب الرحمان نے بتایا کہ حملہ آور نیلے رنگ کی شرٹس پہنے ہوئے تھے اور اُن کے ہاتھوں میں بیگ تھے۔
تاحال کسی بھی گروپ نے اس واردات کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔ واضح رہے کہ اس واقعے سے دو ہی روز پہلے شمالی بنگلہ دیش کے شہر راجشاہی میں ایک یونیورسٹی پروفیسر کو بھی اس انداز میں چھرا گھونپ کر ہلاک کر دیا گیا۔ اس واقعے کی ذمہ داری انتہا پسند تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ نے قبول کی تھی۔
امریکی سفیر مرسیا بیرنیکیٹ نے ایک بیان میں سلہاز منان کے قتل کی مذمت کی ہے اور بنگلہ دیشی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ اس واردات کے ذمے دار عناصر کو گرفتار کرے۔ اپنے بیان میں خاتون سفیر نے مزید کہا ہے:’’سلہاز ہم سب کے نزدیک ایک دفتری ساتھی سے کہیں زیادہ اہمیت رکھتا تھا اور ہماری خوش قسمتی ہے کہ امریکی ایمبیسی میں وہ ہمارے ساتھ کام کرتا تھا۔ وہ ایک پیارا دوست تھا۔‘‘
اس بیان میں مزید کہا گیا ہے:’’ہم تشدد کے اس بے معنی اور احمقانہ اقدام کی مذمت کرتے ہیں اور پُر زور الفاظ میں حکومتِ بنگلہ دیش پر زور دیتے ہیں کہ وہ قتل کے اس واقعے کے ذمہ دار عناصر کے خلاف قانونی کارروائی کرے۔‘‘