1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بن لادن کی ہلاکت پر ڈوئچے ویلے کا تبصرہ

4 مئی 2011

القاعدہ کے سربراہ اُسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد یورپ بھر میں خاص طور پر سیاستدان اور قانونی ماہرین اس نکتے پر بحث کر رہے ہیں کہ آیا امریکی فوج اپنی کارروائی کے ذریعے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کی مرتکب ہوئی ہے۔

https://p.dw.com/p/118wk
القاعدہ کے سربراہ اُسامہ بن لادن
القاعدہ کے سربراہ اُسامہ بن لادنتصویر: AP Photo/MBC via APTN

ایک اعتبار سے اس سوال کا جواب آسان ہے کیونکہ بین الاقوامی قانون میں یہ نہیں لکھا کہ دہشت گردوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جانا چاہیے۔ تاہم ڈوئچے ویلے کی تبصرہ نگار ساندرا پیٹرزمان کے مطابق اِس طرح کے واقعات پر بین الاقوامی قانونی بحث بہرحال وقت کا تقاضا ہے۔

تبصرہ

’’ کسی جمہوری آئینی ریاست کی ناقابلِ تنسیخ بنیاد کیا ہوتی ہے؟ یہ کہ وہ اپنے ہی قوانین کی پاسداری کرتی ہے۔ وہ اپنے سخت ترین دشمن کے ساتھ بھی بدلے کے احساسات رکھے بغیر سلوک کرتی ہے۔

یہ بات غیر متنازعہ ہے کہ اُسامہ بن لادن ایک قاتل تھا، جسے انسانی حقوق کی کوئی پروا نہیں تھی اور جس نے کسی پس و پیش کے بغیر بے شمار انسانوں کو موت کے گھاٹ اُتارا۔ امریکی صدر باراک اوباما نے بن لادن کو جان بوجھ کر ہلاک کیے جانے کے بعد کہا تھا:’’انصاف کے تقاضے پورے ہو گئے۔‘‘ انصاف؟ وفاقی جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے تو کھلے عام اِس خبر پر خوشی کا اظہار کیا:’’مجھے اِس بات پر خوشی ہوئی ہے کہ بن لادن کو ہلاک کرنے میں کامیابی حاصل ہو گئی ہے۔‘‘ خوشی؟

جرمن چانسلر کے بین لادن کی موت پر ’خوشی‘ کے کھلے عام اظہار کو ہدفِ تنقید بنایا جا رہا ہے
جرمن چانسلر کے بین لادن کی موت پر ’خوشی‘ کے کھلے عام اظہار کو ہدفِ تنقید بنایا جا رہا ہےتصویر: dapd

ایک جمہوری آئینی ریاست کی سربراہ کو ایسا کہنا زیب نہیں دیتا۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے، اگر انسان ایک آئینی ریاست کے اصولوں کو سنجیدگی سے لے۔ ان اصولوں کے تحت ہر انسان کو زندہ رہنے کا حق ہے، اُسامہ بن لادن کو بھی۔ ہر انسان کو منصفانہ مقدمے کا حق حاصل ہے۔ ایک آئینی ریاست میں ریاستی طاقت قانون سے جڑی ہوتی ہے۔

بین الاقوامی قانون میں طاقت کے استعمال کے دوران محض استثنائی صورتوں میں ہی تاک کر نشانہ بنانے اور ہلاک کرنے کا ذکر ملتا ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے تجربات بتاتے ہیں کہ کسی مطلق العنان حکمران کو اُس صورت میں قتل کرنے کی اجازت ہے، جب وہ آمر کسی قوم کو قتل کرنے کے لیے اپنا جبر و تشدد کا ڈھانچہ استعمال کر رہا ہو۔ جان بوجھ کر اور تاک کر ہلاک کرنا سب سے آخری حربہ ہونا چاہیے۔ اور ایبٹ آباد میں کیا ہوا؟ جیسا کہ ہمیں اب پتہ چل چکا ہے، اُسامہ بن لادن غیر مسلح تھا۔

ایسے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ تاک کر نشانہ بناتے ہوئے ہلاک کرنے کے موضوع پر بین الاقوامی قانون کی ایک عالمگیر بحث شروع کی جائے۔ اُسامہ بن لادن اور دہشت گردی کے عہد ہی کی بدولت جدید دور کی جنگ تمام حدیں پھلانگ چکی ہے۔ اس صورتِ حال میں مغربی ممالک اور بطورِ خاص امریکہ ایک آئینی ریاست کی حدوں کو پھلانگ رہے ہیں۔ اُسامہ بن لادن پہلا شخص نہیں ہے، جسے تاک کر نشانہ بناتے ہوئے ہلاک کیا گیا ہے تاہم یہ ایک ایسی پیشرفت ہے، جو بہت سی پیچیدگیوں کو جنم دے گی۔

ہم سب کے مستقبل کے لیے بہتر ہوتا، اگر القاعدہ کے نظریاتی سربراہ کو دی ہیگ کی بین الاقوامی عدالت میں ایک باقاعدہ قانونی کارروائی کے دوران اپنے کیے کا حساب دینا پڑتا۔ واضح رہے کہ امریکہ نے آج تک اِس عدالت کو تسلیم نہیں کیا ہے۔‘‘

رپورٹ: ساندرا پیٹرز مان / امجد علی

ادارت: کشور مصطفیٰ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں