1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بن لادن کی ہلاکت کے بعد ’اگلا ہدف کون‘

14 مئی 2011

امریکی خصوصی کمانڈوز کے خفیہ آپریشن میں واشنگٹن کے سب سے مطلوب ترین دشمن اسامہ بن لادن کی دس سالہ تلاش کے نتیجے میں ایبٹ آباد میں ہلاکت کے بعد اب سوال یہ ہے کہ اگلا ہدف کون ہو گا۔

https://p.dw.com/p/11FyH
تصویر: picture-alliance / dpa

دو مئی کو دہشت گرد نیٹ ورک القاعدہ کے رہنما بن لادن کی ہلاکت کے بعد واشنگٹن حکومت واضح کر چکی ہے کہ اگر اسے پاکستان میں دیگر اہم عسکریت پسندوں کا سراغ ملا تو ان کو بھی ہدف بنایا جائے گا۔ اس سلسلے میں واشنگٹن کی مطلوب ترین افراد کی فہرست میں اب سب سے اوپر افغان طالبان کے روپوش رہنما ملا محمد عمر کا نام ہے۔

امریکی حکام کئی سالوں سے یہ کہتے آئے ہیں کہ ایک آنکھ سے نابینا ملا عمر پاکستان کے جنوب مغربی شہر اور صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں ہیں، جہاں وہ افغان سرحد سے زیادہ دور بھی نہیں ہیں اور جہاں سے وہ طالبان کی قیادت کرنے والی کوئٹہ شوریٰ کی رہنمائی کرتے ہیں۔

پاکستان کی طرف سے ان دعووں کی تردید کی جاتی ہے کہ ملا عمر پاکستان میں ہیں یا طالبان کی کوئٹہ شوریٰ نامی کسی کونسل کا کوئی وجود بھی ہے۔ لیکن پاکستانی حکام کے ایسے دعوے اب بظاہر کم قابل اعتبار ہو گئے ہیں کیونکہ اسامہ بن لادن کے بارے میں بھی یہی کہا جاتا تھا لیکن پھر امریکہ کو القاعدہ کے رہنما کا پتہ چلا بھی تو فوجی اہمیت کے شہر ایبٹ آباد میں، جو اسلام آباد سے زیادہ دور بھی نہیں ہے۔

Central Intelligence Agency CIA Logo

اس موضوع پر خبر ایجنسی روئٹرز نے اپنے ایک تفصیلی جائزے میں لکھا ہے کہ ان دنوں کوئٹہ میں عام شہری شکوک و شبہات اور اعصابی بے چینی کا شکار ہیں۔ وہ عسکریت پسند مسلمانوں کے مقابلے کی جنگ میں دونوں فریقوں کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

کوئٹہ کے رہنے والے اور ایک دوا ساز کمپنی کے ذوالفقار ترین نامی ایک نمائندے کی رائے کا حوالہ دیتے ہوئے روئٹرز نے اپنے اس تجزیے میں لکھا ہے کہ ذوالفقار ترین جیسے لوگوں کو نہ تو ملا عمر یا طالبان سے کوئی ہمدردی ہے اور نہ ہی امریکہ سے۔ روئٹرز نے اپنے اس تجزیے میں ذوالفقار ترین کے موقف کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے، ‘ہاں، طالبان دہشت گرد ہیں لیکن امریکہ بھی ایسا ہی ہے۔‘

دوسری طرف پاکستان میں ایک عرب سفارت کار کا کہنا ہے، ‘اگر افغانستان اور پاکستان کا استحکام مطلوب ہے تو پھر ملا عمر کو سب سے پہلے پکڑا جانا چاہیے۔ وہ سب سے اہم ہے۔ اگر امریکہ کا اگلا ہدف ملا عمر ہوا تو مجھے حیرانی نہیں ہو گی۔‘

کوئٹہ شہر کی مجموعی آبادی 2.5 ملین کے قریب بنتی ہے۔ وہاں افغان باشندوں کی بھی بہت بڑی تعداد آباد ہے۔ چاروں طرف سے پہاڑوں میں گھرا ہوا یہ شہر ایک وسیع تر وادی میں پھیلا ہوا ہے۔ کوئٹہ میں طویل عرصے سے بہت سے افغان مہاجرین اور طالبان کے حامی آباد رہے ہیں۔ پاکستان کا یہ شہر افغان سرحد اور بد امنی کے شکار جنوبی افغان صوبے قندھار سے قریب سو کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ افغان حکام دعوے کرتے ہیں کہ کوئٹہ طالبان عسکریت پسندوں کا بڑا مرکز ہے۔

کئی پاکستانی سکیورٹی اہلکار بھی اس بارے میں غیر یقینی صورت حال کا شکار ہیں کہ آیا ملا عمر کوئٹہ میں ہی کہیں روپش ہے۔ ایک پاکستانی خفیہ ادارے کے ایک اعلیٰ اہلکار کے مطابق جہاں تک کوئٹہ کا سوال ہے، تو صورت حال بہت غیر واضح ہے۔ ان حالات میں کوئی بھی انسان بڑی آسانی سے دھوکہ کھا سکتا ہے۔ اس پاکستانی انٹیلی جنس اہلکار نے روئٹرز کو بتایا کہ اگر آپ یہ پوچھیں کہ آیا ملا عمر کوئٹہ میں ہے، تو ایماندارانہ جواب نفی میں ہو گا۔ ‘‘ہمیں ایسی کوئی اطلاع نہیں ہے۔ تاہم ملا عمر کی تلاش تیز تر کیے جانے کے باوجود ابھی تک طالبان کے اس رہنما کا کوئی سراغ نہیں ملا۔‘‘

اس پاکستانی اہلکار نے یہ بھی کہا کہ جیسے ہی پاکستان کو ملا عمر کی کسی بھی جگہ موجودگی کا علم ہوا، اسے گرفتار کر لیا جائے گا۔ ‘‘اس لیے کہ ہمارے لیے یہ بات بہت اہم ہے کہ اس سے پہلے کہ امریکہ ملا عمر تک پہنچے، اسے ہم پکڑ لیں۔‘‘

رپورٹ: عصمت جبیں

ادارت: شامل شمس

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں