بون کانفرنس کی کامیابی پاکستان کی شرکت سے مشروط
2 دسمبر 2011کانفرنس میں نیٹو افواج کے افغانستان سے 2014ء میں انخلاء کے بعد افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے حکمت عملی وضع کی جائے گی۔ اس کانفرنس میں سو سے زائد عالمی وفود شرکت کر رہے ہیں تاہم پاکستانی چوکیوں پر نیٹو کی بمباری کے بعد پاکستان نے بون کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس اقدام نے افغانستان کے بہتر مستقبل کے حوالے سے عالمی برادری کی توقعات کو مزید خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔ میزبان ملک جرمنی کے وزیر خارجہ گیڈو ویسٹر ویلے نے بھی اعتراف کیا ہے کہ اگر اسلام آباد حکومت نے اپنا فیصلہ تبدیل نہ کیا تو اس بین الاقوامی کانفرنس کی کامیابی کے لیے یہ ایک بڑا دھچکا ہو گا۔
مبصرین کے مطابق افغانستان میں شدت پسند طالبان کے زوال اور اقتدار کی سیاسی حکومت کو منتقلی کے بعد جرمنی کی جانب سے افغانستان کے بہتر مستقبل کے لیے دس سال کے بعد دوبارہ اس کا نفرس کا انعقاد کیا جا رہا ہے تاہم پاکستان کی عدم شرکت کے فیصلے نے ان تمام امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ معروف جرمن اخبار دی ویلٹ کے مطابق مستقبل میں عالمی برادری کے ان تمام اقدامات کا بنیادی مقصد افغان حکومت اور طالبان کے درمیان امن کو فروغ دینا ہو گا لیکن اس سارے عمل میں پاکستان کی بنیادی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔
معروف اخبار فنانشل ٹائمز جرمنی نے لکھا ہے کہ اگر پاکستان اس کانفرنس کے بائیکاٹ کے فیصلے پر قائم رہا تو اجلاس کے دوران زیر بحث لائے جانے والے زیادہ تر معاملات بے معنی ہوں گے۔ اسی طرح روزنامہ برلینر سائی ٹُنگ نے لکھا ہے کہ اسلام آباد کی عدم شرکت سے اس کانفرنس سے افغانستان کو حاصل ہونے والے فوائد شدید خطرات سے دوچار ہو سکتے ہیں۔ تاہم جرمن حکام پر امید ہیں کہ پاکستانی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر کی کانفرنس سے غیر حاضری کے باوجود بھی کسی نہ کسی سطح پر پاکستان کی نمائندگی ضرور ہو گی۔
معروف جرمن تجزیہ کار کرسٹیان واگنر کے مطابق افغانستان کے سیاسی مستقبل کے حوالے سے مغربی دُنیا اور پاکستان کے نظریات مختلف ہیں۔ واگنر کا کہنا ہے کہ پاکستان، افغانستان میں بڑھتے ہوئے بھارتی اثر و رسوخ اور پشتون قوم پرستی کے خلاف طالبان کو ایک اہم مہرہ قرار دیتا ہے۔ کانفرنس میں دیگر عالمی رہمناؤں کے علاوہ افغان صدر حامد کرزئی، افغان وزیر خارجہ زلمے رسول، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون اور امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن بھی شرکت کر رہی ہیں۔
نیٹو افواج کے 2014ء میں افغانستان سے مجوزہ انخلاء کے بعد ملک میں امن و امان اور سلامتی کی ذمہ داری افغان حکومت کی ہو گی۔ آج کل ایک لاکھ چالیس ہزار غیر ملکی فوجی افغانستان میں قیام امن کے لیے کوشاں ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر تعداد امریکیوں کی ہے اور اس کے بعد بالترتیب برطانیہ اور جرمنی کے اہلکار ہیں۔ جرمن حکام کا کہنا ہے کہ اس کانفرنس کے انعقاد کا ایک بنیادی مقصد ان نظریات کی حوصلہ شکنی بھی ہے، جن کے مطابق یہ اندیشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ عالمی سطح پر اقتصادی بحران کے بعد بین الاقوامی قوتیں افغانستان کے مسئلے کو پس پشت ڈال رہی ہیں۔
رپورٹ: شاہد افراز خان
ادارت: امجد علی